ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں رواں ہفتے ہونے والی اسلامی ممالک کی کانفرنس میں پاکستان سمیت کئی ممالک شرکت نہیں کر رہے۔
اگرچہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان پہلے اس کانفرنس میں شرکت کا کہہ چکے تھے لیکن انہوں نے کانفرنس سے چند روز قبل اپنے ملائیشین ہم منصب مہاتیر محمد سے ٹیلی فون پر بات کر کے شرکت سے معذرت کر لی ہے۔
پاکستان کے ٹی وی ٹاک شوز اور مباحثوں میں یہ معاملہ موضوعِ بحث ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان نے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے دباؤ میں آ کر کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے انکار کر کے بہت بڑی سفارتی غلطی کی ہے۔
البتہ پاکستان کے مقامی ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیان کے مطابق پاکستان نے اس کانفرنس میں شرکت پر سعودی عرب اور قطر کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی لیکن وقت کی کمی کے باعث کامیابی نہیں مل سکی۔
ان کے بقول یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے بھی اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان نے اپنے آپ کو اس کانفرنس سے دور رکھ کر خود کو مشکل صورتِ حال میں ڈال لیا ہے۔
اگرچہ ملائیشیا کے وزیرِ اعظم مہاتیر محمد اس تاثر کو رد کر چکے ہیں کہ یہ کانفرنس مسلمان ممالک کی تنظیم او آئی سی کے متوازی ہے۔ ان کے بقول یہ کانفرنس مسلم اُمہ کو درپیش مسائل کے حل پر غور کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود سعودی عرب سمیت بعض عرب ممالک کو اس کانفرنس پر تحفظات ہیں۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ظفر جسپال کے بقول اگرچہ پاکستان نے اس معاملے میں غیر جانب دار رہنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے بقول پاکستان کو اس کا مستقبل میں فائدہ بھی ہو سکتا ہے اور نقصان بھی۔
ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ترکی، ملائیشیا اور ایران نے جمّوں و کشمیر کے تنازع پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت کی تھی۔
یاد رہے کہ یہ کانفرنس 18 سے 21 دسمبر کو ملائیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں ہو رہی ہے جس میں ترکی اور ایران سمیت کئی اہم اسلامی ممالک کے رہنما شریک ہیں۔
تجزیہ کار ظفر جسپال کے بقول یہ ایک بڑا فورم ہوگا اور اگر عمران خان اس میں شرکت کرتے تو یہ تنازعِ کشمیر اجاگر کرنے کا بہترین موقع ہو سکتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک کسی ایک بلاک کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ خاص طور پر پاکستان جیسا اسلامی ملک جو بعض اسلامی ممالک کے درمیان غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے سہولت کاری بھی کرتا رہا ہے۔
ظفر جسپال کا کہنا تھا کہ کوالالمپور کانفرنس میں ترکی سمیت پانچ بڑے اسلامی ممالک شریک ہیں۔ جو بڑی آبادی اور معیشت کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان سے تعلقات استوار رکھنا بھی پاکستان کے مفاد میں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے اقتصادی اور معاشی تعلقات میں سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک سے زیادہ گرم جوشی پائی جاتی ہے۔ ان کے بقول پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بہت مدد کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب اس بات کا تعین مستقبل میں ہی ہو سکے گا کہ پاکستان کے ملائیشیا اور ترکی کے ساتھ تعلقات کی نوعیت اب کیا ہو گی۔
سلامتی امور کے تجزیہ کار طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب پاکستان کی اقتصادی صورتِ حال میں بہتری کے لیے معاونت کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اس کانفرنس میں شرکت نہیں کر رہا۔
طلعت مسعود نے کہا کہ خارجہ پالیسی سے متعلق سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے فیصلوں سے قبل دیگر ریاستی اداروں سے بھی مشاورت ضروری ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو یہ ملک کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
ان کے بقول پاکستانی حکام کا مؤقف ہے کہ پاکستان بعض اسلامی ممالک کے درمیان اختلافات کے پیشِ نظر کوئی فریق بننے کے بجائے غیر جانب دار کردار ادا کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے کوششیں جاری رکھے گا۔
ادھر حکومت پپاکستان کی ترجمان فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ وزیر اعظم کی ملائیشیا میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے بارے میں مقامی ٹی وی چینل پر مختلف طرح کی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ تاہم، ان کےبقول، ’’پاکستان کسی ایک اسلامی ملک کے انفرادی مفادات کے ساتھ کھڑا ہونے کی بجائے اسلامی ممالک کے اتحاد اور یکجتہی کے لیے اپنا کلیدی کردار ادا کرے گا‘‘۔
بدھ کو اسلام آباد میں حکمران جماعت، پاکستان تحریک انصاف کی کور کمٹی کے اجلاس کےبعد ایک نیوز کانفرنس کے دوران فردوس اعوان نے بتایا کہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ملائیشیا کے ملتوی ہونے والے دورے کے محرکات اور پس منظر سے کمیٹی کو آگاہ کیا۔
فردوس اعوان نے مزید کہا کہ اس وقت خطے میں پاکستان کے اسٹریٹجک مفاد وابستہ ہیں۔ ان کے بقول، 57 ممالک پر مشتمل اسلامی تعاون تنظیم یعنی ’او آئی سی‘ ایک اہم پلٹ فارم ہے۔ ان کے بقول، پاکستان اسلامی ممالک کو یکجا کرنے کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اسلامی ممالک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔