پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان سعودی عرب کے بعد بحرین کا دورہ بھی مکمل کر چکے ہیں۔ اُن کا مشرقِ وسطیٰ میں دو روز میں یہ دوسرا دورہ ہے، جب کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا ہے۔
تجزیہ کار وزیرِ اعظم اور آرمی چیف کے ان دوروں کو کوالالمپور کانفرنس کے حوالے سے دیکھ رہے ہیں جس میں سعودی عرب، امارات اور بحرین شریک نہیں ہیں۔
ان دوروں کے بعد کوالالمپور سربراہ اجلاس میں وزیرِ اعظم عمران خان کے شریک ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے اطلاعات گردش کر رہی ہیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان کی مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ کوالالمپور سمٹ میں وزیرِ اعظم کی شرکت کا فیصلہ ان کے دورۂ سوئٹزرلینڈ سے واپسی پر کیا جائے گا۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے دو دنوں میں مشرق وسطیٰ کے دو ممالک کا دورہ کیا ہے۔ سعودی عرب کے بعد وہ پیر کو بحرین پہنچے تھے۔
سعودی عرب کے دورے میں ان کی ملاقات سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ہوئی، جب کہ بحرین کے دورے میں وہ بحرین کے سربراہ حماد بن عیسیٰ الخلیفہ سے ملے۔
سرکاری طور پر ان دوروں کے حوالے سے معمول کی باتیں کی گئیں ہیں جن میں دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تعلقات کا حوالہ دیا گیا ہے۔
تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان ملاقاتوں کی ٹائمنگ ایسی ہے جب ملائیشیا میں ایک اہم کانفرنس ہو رہی ہے جسے او آئی سی کے متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
تجزیہ کار اور سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ ملائیشیا میں ہونے والی کانفرنس بہت اہم ہے۔ مسلم امہ کو عالمی سطح پر توازن قائم کرنے کے لیے جی سکس یا جی سیون ممالک کا ایک گروپ تشکیل دینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنا رہے ہیں اور ساتھ ہی پاکستان کے لیے ملائیشیا میں ہونے والی کانفرنس بھی بہت اہم ہے۔
شمشاد خان کا کہنا تھا "اس وقت مسلم دنیا کا عالمی سطح پر کوئی مقام نہیں ہے اور وہ مختلف طاقتوں کے دم چھلے بنے ہوئے ہیں۔ اس وقت مسلم ممالک کو لیڈر شپ کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضروری نہیں کہ تمام اسلامی ممالک جمع ہوں۔"
ان کے بقول، "پاکستان، ایران، سعودی عرب، ملائیشیا اور ترکی وہ ممالک ہیں جو یہ لیڈر شپ فراہم کر سکتے ہیں۔ یہ ممالک اپنی تقسیم اور اختلافات خواہ وہ نسلی ہوں، مسلکی ہوں یا کوئی بھی ہوں، سب چھوڑ کر اور یک جا ہو کر ایک گروپ بنائیں جو تین مختلف سمتوں پر کام کرے، جن میں سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی امور پر ایک اتحاد ہو جو جی سکس یا جی سیون طرز کے گروپ پر کام کرے۔"
شمشاد خان کہتے مزید کہتے ہیں کہ پاکستان کو یہ کردار ادا کرنا ہو گا اور عمران خان یہ کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مغربی دنیا میں نیٹو کی طرح مسلم دنیا کو بھی جمع ہونا ہو گا۔ اس وقت عالمی سطح پر توازن کے لیے اگر یہ ممالک مل کر کام کریں تو مسلم امہ کے لیے بہتری آ سکتی ہے۔
تجزیہ کار بریگیڈئیر ریٹائرڈ سید نذیر کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان مشکل صورت حال میں ہے۔ اس کانفرنس کا فیصلہ امریکہ میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں ہوا لیکن پاکستان نے اس سلسلے میں مناسب تیاری نہیں کی۔
ان کے بقول، "اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اگر پاکستان اس کانفرنس میں شامل نہیں ہوتا تو پاکستان کو ترکی، ملائیشیا اور ایران کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور شمولیت کی صورت میں سعودی عرب اور امارات سے اس کے تعلقات کشیدہ ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کو سوچ سمجھ کر درمیانی راستہ نکالنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ملائیشیا کانفرنس کا خیال ترک صدر رجب طیب ایردوان کا تھا۔ پاکستان بھی اس میں شامل تھا۔ بحرین، سعودی عرب اور امارات اس میں شامل نہیں اور وہ اسے او آئی سی کا متبادل سمجھتے ہیں اور وہ ترکی اور ایران کی موجودگی میں ایسے کسی فورم میں شامل نہیں ہونا چاہتے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کا یہ دورہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان نے سفارتی سطح پر اس سمٹ کے حوالے سے تیاری نہیں کی تھی۔ عمران خان کو اس کانفرنس میں شرکت سے پہلے اپنے تمام اتحادیوں کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا، کیونکہ پاکستان کو ترکی یا ملائیشیا کو نظر انداز کرنا بہت مشکل ہو گا۔
دوسری جانب سعودی عرب و امارات کے ساتھ اقتصادی تعلقات بھی پاکستان کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔
اس وقت پاکستان توازن میں نظر نہیں آ رہا اور بظاہر یہ دکھائی دے رہا ہے کہ عمران خان اس کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ کوالالمپور سمٹ او آئی سی کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ او آئی سی پہلے ہی کمزور ہے اور ایسا گروپ بننے سے یہ مزید کمزور ہو گا۔ تمام معاملات کو او آئی سی کی سطح پر چلایا جانا چاہیے تھا، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا۔
پاکستانی حکومت نے کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں اب تک حتمی اعلان نہیں کیا اور اسلام آباد میں مشیر اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے میڈیا سے غیر رسمی بات چیت میں کہا کہ اس کانفرنس میں وزیرِ اعظم کی شرکت کا فیصلہ وزیراعظم کے دورہ سوئٹزرلینڈ کے بعد ہو گا۔
حکومت کی طرف سے اگرچہ کہا تو جا رہا ہے کہ وہ کسی دباؤ میں نہیں آئیں گے، تاہم پاکستان کی مشکل اقتصادی صورت حال میں سعودی امداد ضروری ہے اور امکان ہے کہ پاکستان سعودی عرب کو ناراض کرنے کا متحمل نہیں ہو گا۔