رجسٹرار آفس سپریم کورٹ نے پشاور میں بینچ تبدیلی کے معاملہ پر جسٹس منصور علی شاہ کا اختلافی نوٹ جاری کر دیا ہے، جس میں جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ تبدیل شدہ بینچ میں بیٹھنے کی غلطی تسلیم کرتا ہوں۔ غلطی کا احساس ہونے پر بینچ تبدیل کرنے کے حکم پر دستخط نہیں کیے۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے قواعد چیف جسٹس کو بینچ تشکیل کا اختیار دیتے ہیں۔ لیکن، بینچ تشکیل کے بعد معاملہ چیف جسٹس کے انتظامی اختیار سے باہر چلا جاتا ہے۔ بینچ تشکیل کے بعد جج ذاتی وجوہات پر کیس سننے سے انکار کریں تو نیا بینچ بنایا جا سکتا ہے۔ بینچ کے کسی جج سے اختلاف پر بینچ تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ جج سے اختلاف کی بنیاد پر بینچ تبدیل کرنا آئین اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے۔ عدالتی نظام میں ہر جج غیر جانبدار، ایماندار ہونے کے ساتھ اپنی رائے دینے میں آزاد ہے۔ کسی جج کے انکار کے بغیر بینچ تبدیل کرنا جج کی آزاد رائے کا گلا گھوٹنا ہے۔ اختلاف کو دبانا یا دفن کرنا آزاد انصاف کے نظام کی بنیادیں ہلا دے گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایسے اقدام لوگو ں کا عدلیہ پر اعتماد مجروع ہوگا۔ لوگوں کا اعتماد نظام انصاف کا اہم ترین اثاثہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دوران سماعت آئینی اور ہیومن رائیٹس مقدمات کے آغاز کے بارے پوچھا۔ اس موقع پر بینچ کے دو سینئر ممبر کے ساتھ بیٹھنے پر بے چینی محسوس کی۔ چیف جسٹس کو تجویز دی کہ سماعت میں وقفہ کرکے معاملہ پر چمبر پر بحث کی جائے۔ لیکن چیف جسٹس نے کھلی عدالت میں نئے بینچ کی تشکیل کا کہہ دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ 9 مئی کو سنے گئے کچھ مقدمات کے حکم نامے میرے سامنے دستخط کرنے کیلئے لائے گئے، مگر میں نے اس لئے انکار کیا کہ پہلے جسٹس قاضی فائز کے نوٹ کا جواب لکھا جائے، جو آج تک نہیں لکھا گیا۔ اور اب میں اس پر اپنا فیصلہ لکھ رہا ہوں کیونکہ چیف جسٹس 17 جنوری کو اپنی مدت ملازمت مکمل ہونے پر ریٹائر ہو رہے ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ کا اختلافی نوٹ
اس اختلافی نوٹ سے قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی چیف جسٹس سے اپنا اختلافی نوٹ لکھ چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے کیس کی سماعت کے دوران بینچ سے علیحدہ کرنے کے طریقہ کار پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ آرٹیکل 184(3) پڑھے جانے سے پہلے چیف جسٹس نے مداخلت کی اور کہا کہ وہ بنچ دوبارہ تشکیل دے رہے ہیں اور پھر وہ اٹھ گئے۔ بنچ دوبارہ تشکیل دیدیا گیا اور اس سے متعلق مجھے کوئی بھی آرڈر نہیں بھیجا گیا تھا۔ بینچ کی تشکیل نو بلاجواز اور بے مثال ہے کیوں کہ اس حوالے سے کوئی آرڈر مجھے نہیں دیا گیا اور ایسا کرنے سے نظام انصاف کی شفافیت کو نقصان پہنچا ہے جس کے سنگین نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے اصل دائرہ کار کے استعمال سے پہلے اس کا آئین سے مطابقت دیکھنا ضروری ہے۔ یہ نوٹ لکھنے پر مجبور ہوں۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو اپنے ضمیر پر بوجھ برداشت کرنا پڑتا۔ مجھے جج کی ذمہ داریاں ادا کرنے سے روکا جارہا ہے۔
معاملہ تھا کیا؟
8 مئی کو سپریم کورٹ پشاور رجسٹری میں ادویات کے فضلے کو تلف کیے جانے کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت تھی اور چیف جسٹس ثاقب نثار، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ اس کی سماعت کر رہا تھا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ پشاور رجسٹری میں اسپتالوں کے فضلے سے متعلق کیس کی سماعت شروع ہوتے ہی جسٹس فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس پر اعتراض اٹھا دیا تھا اور کہا تھا کہ آپ ہیومن رائٹس سے متعلق امور کی سماعت نہیں کرسکتے۔
چیف جسٹس آرٹیکل ایک سو چوراسی کے تحت انسانی حقوق سے متعلق امور کی سماعت نہیں کر سکتے۔ سماعت کے دوران صوبے کے ایڈووکیٹ جنرل سے یہ سوال کیا گیا کہ یہ معاملہ کس طرح آرٹیکل 184 تھری کے اندر آتا ہے آپ 184 تھری پڑھیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ 184 تھری کو پڑھے جانے سے پہلے چیف جسٹس نے مداخلت کی اور کہا کہ وہ بینچ کو دوبارہ تشکیل دے رہے ہیں جس کے بعد بینچ اٹھ گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نوٹ کے مطابق بینچ دوبارہ تشکیل دیا گیا۔ تاہم، اس حوالے سے مجھے کوئی نوٹس نہیں بھجوایا گیا، جس کے بعد دو رکنی بینچ اکھٹا ہوا اور اس بینچ میں مجھے شامل نہیں کیا گیا اور مجھے نکال دیا گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے نوٹ میں لکھا ہے کہ بینچ کی تشکیل نو بلاجواز اور بے مثال ہے کیوں کہ اس حوالے سے کوئی آرڈر مجھے نہیں دیا گیا اور ایسا کرنے سے نظام انصاف کی شفافیت کو نقصان پہنچا ہے، جس کے سنگین نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔