رسائی کے لنکس

سپریم کورٹ: اصغر خان کیس ختم کرنے کی سفارش مسترد


فائل تصویر
فائل تصویر

جمعے کو سپریم کورٹ میں اصغر خان عمل درآمد کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایف آئی اے کہتا ہے کہ ان کے پاس شواہد نہیں لیکن عدالت نے تاحال کیس بند نہیں کیا۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے نوے کی دہائی میں پیسوں کے عوض سیاسی انجینئرنگ سے متعلق اہم مقدمے 'اصغر خان کیس' ختم کرنے کی وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی سفارش مسترد کردی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ سیکریٹری دفاع آکر بتائیں کہ تحقیقات میں کیا پیش رفت ہوئی؟ ہر ادارہ سپریم کورٹ کو جواب دہ ہے۔

جمعے کو سپریم کورٹ میں اصغر خان عمل درآمد کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایف آئی اے کہتا ہے کہ ان کے پاس شواہد نہیں لیکن عدالت نے تاحال کیس بند نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کا مقصد صرف دو افسران کے خلاف تحقیقات نہیں۔ عدالت اصغر خان کے اہلِ خانہ کے ساتھ کھڑی ہے، اصغر خان کی جدوجہد رائیگاں نہیں جانے دیں گے۔ معاملے کی مزید تحقیقات کرائیں گے۔ اصغرخان کی زندگی کا بڑا حصہ اس کیس میں گزرا۔ اصل تحقیقات کا وقت آیا تو رکاوٹیں آنے لگیں۔

درخواست گزار کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت میں بتایا کہ جس فوجی افسر نے رقم تقسیم کرنا تسلیم کیا، اس کا بیان ہی نہیں لیا گیا۔ عدالت با ضابطہ طور پر تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے۔

اس موقع پر ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے کا مینڈیٹ فوجداری تحقیقات کا تھا۔ ایف آئی اے نے 10 سیاست دانوں سے تحقیقات کرنا تھیں جس میں سے چھ سیاست دان انتقال کر چکے ہیں۔ بقیہ سیاسی رہنماؤں نے رقم وصول کرنے سے انکار کیا۔

ڈی جی ایف آئی اے نے کہا کہ چالان کے لیے ضروری ہے کہ شواہد موجود ہوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کم از کم اس کیس میں اصغر خان کی فیملی سے بھی پوچھ لیتے۔ عدالتی فیصلے کے ایک، ایک صفحے سے ثابت ہوا کہ یہ اسکینڈل ہوا ہے۔

عدالت نے دلائل سننے کے بعد اصغر خان کیس پر عمل درآمد ختم کرنے کے لیے ایف آئی اے کی سفارش مسترد کردی۔

اصغرخان کیس ہے کیا؟؟

سن 1990 کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق چیئر پرسن بے نظیر بھٹو کی حکومت کو گرانے اور اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت تشکیل دینے کے لیے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف سمیت متعدد سیاست دانوں کو اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اسد درانی نے پیسے دیے تھے۔

اس معاملے کی تحقیقات کے لیے تحریکِ استقلال کے سربراہ مرحوم اصغر خان نے سپریم کورٹ کو درخواست دی تھی جو بعد ازاں پٹیشن میں تبدیل کر دی گئی تھی۔

یہ کیس اس وقت زیادہ اہمیت اختیار کرگیا تھا جب آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ر) اسد درانی نے اپنے حلف نامے میں آرمی چیف کے حکم پر انتخابات کے لیے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں اور بعض صحافیوں کے درمیان نو کروڑ روپے تقسیم کرنے کا اعتراف کرلیا تھا۔

سابق وفاقی وزیر بیگم عابدہ حسین واحد سیاست دان ہیں جنہوں نے پیسے لینے کا اعتراف کیا۔ جب کہ سابق وزیرِ اعظم نوازشریف اور دیگر نے رقم کی وصولی سے انکار کیا تھا۔ البتہ جنرل درانی آج بھی اپنے مؤقف اور حلف نامے پر قائم ہیں۔

اصغر خان کیس کاعدالتی فیصلہ کیا تھا؟

سال 2012 میں سیاست دانوں میں رقوم کی تقسیم سے متعلق کیس کا فیصلہ سنایا گیا تھا جسے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے تحریر کیا تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں 1990ء کے عام انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا تھا۔

فیصلے میں شریک ملزم بریگیڈیئر ریٹائرڈ حامد سعید کی وہ ڈائری بھی شامل تھی جس میں پیسے لینے والوں کا ذکر ہے۔

تفصیلی فیصلے میں عدالت کا کہنا تھا کہ خفیہ اداروں کا کام الیکشن سیل بنانا نہیں بلکہ سرحدوں کی حفاظت ہے۔ اس وقت کے صدر، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنے عہدوں کا ناجائز استعمال کیا۔

تفصیلی فیصلے کے مطابق اسلم بیگ اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی اسد درانی غیر قانونی سرگرمیوں میں شریک ہوئے۔ ان کا یہ عمل انفرادی فعل تھا۔ اداروں کا اس میں کوئی کردار نہ تھا۔

سپریم کورٹ نے حکومت کو ملزمان کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا اور فیصلے پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے ایک عمل درآمد بینچ بھی تشکیل دیا تھا۔

XS
SM
MD
LG