پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی (ایف آئی اے) نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں اصغر خان عمل درآمد کیس کی فائل بند کرنے کی سفارش کردی ہے۔
اس کیس کے مدعی ایئرمارشل ریٹائرڈ اصغرخان رواں سال انتقال کرگئے تھے۔
ایف آئی اے نے ہفتے کو سپریم کورٹ میں اصغر خان کیس سے متعلق ایک رپورٹ جمع کرائی ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ ادارے کے پاس اتنے شواہد نہیں کہ اس کیس پر فوجداری کارروائی ہو سکے۔
ایف آئی اے کے مطابق جن سیاست دانوں پر الزام تھا انہوں نے رقم کی وصولی کی تردید کی ہے۔ اہم گواہوں کے بیانات میں جھول ہیں اور بیانات ایک دوسرے سے نہیں ملتے۔ معاملہ 25 سال سے زیادہ پرانا ہے اور متعلقہ بینکوں سے پیسہ اکاؤنٹس میں جمع ہونے کا مکمل ریکارڈ بھی نہیں ملا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان پیر کو یہ مقدمہ سنے گی۔ اگر عدالت نے ایف آئی اے کی یہ استدعا منظور کرلی تو نواز شریف اور شہباز شریف سمیت اہم سیاست دانوں کو ریلیف مل جائے گا۔
اصغرخان کیس میں بڑے بڑے سیاست دانوں پر 1990ء کی دہائی کے الیکشن میں اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اسد درانی سے پیسے لینے کا الزام تھا۔
سپریم کورٹ نے ان انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے ایف آئی اے کو رقوم تقسیم کرنے کے معاملے کی انکوائری کا حکم دیا تھا۔
اکتوبر 2012ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان کی درخواست پر اس کیس کا فیصلہ سنایا تھا۔
عدالت نے 1990ء کے انتخابات میں دھاندلی اور سیاسی عمل کو آلودہ کرنے پر سابق آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اسد درانی کے خلاف وفاقی حکومت کو قانونی کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوا تھا۔
عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی جسے اصغر خان عمل درآمد کیس کا نام دیا گیا تھا۔
رواں سال مئی میں چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے دوبارہ حکومت کو ان دونوں سابق اعلیٰ فوجی افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔
اس کیس کے ختم ہونے سے نوازشریف پر کیسز کا بوجھ کم ہو گا جو پہلے ہی اس وقت لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔