اطالوی وزیر اعظم متیو رینزی نے بدھ کو میلان میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کی، جہاں دونوں رہنما ’ایکسپو 2015ء بین الاقوامی میلے‘ میں شرکت کر رہے ہیں۔
کرائیمیا کو ضم کرنے کے روسی اقدام اور مشرقی یوکرین میں علیحدگی پسندوں کو حمایت فراہم کرنے پر، اٹلی کی مخالفت کی نشاندہی کرتے ہوئے، مسٹر رینزی نےکچھ امور پر دونوں ملکوں کے ’متضاد مؤقف‘ کا ذکر کیا، ساتھ ہی اُنھوں نے دونوں کی ’روایتی دوستی‘ کو سراہا۔
رینزی کے بقول، ’ہمیں دشوار بین الاقوامی صورت حال درپیش ہے۔ نہ صرف اُن معاملات پر جو ہمیں متحد نہیں کرتے۔ لیکن، اُن تنازعات پر بھی، جو بین الاقوامی تناظر میں انتہائی پیچیدہ ہیں۔ لیکن، اُن پر ہمارا مؤقف یکساں نوعیت کا ہے، جن میں دہشت گردی کے عالمی خطرہ شامل ہے‘۔
اس ہفتے کے اوائل میں ہونے والے سربراہ اجلاس میں، دنیا کے سات اہم صنعتی ممالک کی تنظیم، جس میں اٹلی بھی شامل ہے، یوکرین میں جارحیت کے اقدامات کی پاداش میں روس کے خلاف تعزیرات لگانے کا اعادہ کیا۔
امریکہ اور اُس کے مغربی اتحادیوں نے روس پر الزام لگایا ہے کہ وہ اسلحے اور فوجی نفری فراہم کرکے، وہاں بغاوت کو ہوا دے رہا ہے۔
روس اِن الزامات کو رد کرتا ہے۔ اُس کا اصرار ہے کہ علیحدگی پسندوں کے ساتھ لڑائی میں شامل روسی دراصل رضاکار ہیں۔
اُن کی جانب سے، مسٹر پیوٹن نے بدھ کو کہا کہ اٹلی یورپ کا ایک عظیم ساجھے دار ہے اور روسی معیشت میں سرمایہ کرنے والا ایک بڑا فریق ہے۔
روسی صدر بدھ کی شام پوپ فرینسس سے ملاقات کرنے والے ہیں۔
پوپ نے مشرقی یوکرین میں انسانی جانوں کے نقصان پر اپنے دکھ کا اظہار کیا ہے اور تمام فریق پر زور دیا ہے کہ اس سال کے اوائل میں بیلاروس کے دارالحکومت، مِنسک میں طے ہونے والے فائربندی کے سمجھوتے پر عمل درآمد کا مطالبہ کیا ہے۔
’ہولی سی‘ میں تعینات امریکی سفیر، کینتھ ہیکٹ نے بدھ کے روز کہا ہے کہ امریکہ اس بات کا خواہاں ہے کہ پوپ کی مسٹر پیوٹن کے ساتھ ملاقات کے دوران، وٹیکن مشرقی یوکرین کی صورت حال کے بارے میں اپنی تشویش کو شدت کے ساتھ بیان کریں گے۔
جنگ بندی کے اس سمجھوتے پر فروری میں دستخط کیے گئے تھے، جس میں دونوں فریق سے ’لائن آف کانٹیکٹ‘ پر نصب بھاری دہانے والا اسلحہ ہٹانے کے لیے کہا گیا تھا۔ تاہم، بین الاقوامی مبصرین نے متواتر یہ اطلاعات دی ہیں کہ سمجھوتے کی شقوں کی مسلسل خلاف ورزی جاری ہے۔
مشرقی یوکرین میں لڑائی کا آغاز اپریل، 2014ء میں ہوا، تب سے 6400 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔