دنیا کے سات بڑے صعنتی ملکوں کا سالانہ سربراہ اجلاس اتوار کے روز جرمنی میں شروع ہوا، جس کے پہلے روز عالمی معیشت اور تجارتی ضابطوں میں لچک پیدا کرنے سے متعلق بات چیت کے لیے وقف تھے۔ اجلاس کے دوران یوکرین میں جاری لڑائی اور روس کے خلاف تعزیرات کے معاملات پر بھی دھیان مرکوز رہا۔
توقع کی جاتی ہے کہ شریک سربراہان عالمی بحرانوں پر بھی گفتگو کریں گے، جن میں عراق اور شام میں داعش کے شدت پسند گروپ کی جانب سے تسلط جمانے کی کوششیں اور لیبیا اور یمن کے بحران شامل ہیں۔
ساتھ ہی، چین سے متعلق تشویش کے باعث معاملات پر بات چیت بھی شامل ہے، جو بحرالکاہل میں جزیرے تعمیر کر رہا ہے، تاکہ اِن کے ذریعے جہازرانی پر کنٹرول کیا جا سکے۔
امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ ایجنڈا میں 'مشکل چیلنجوں' کی ایک لمبی فہرست شامل ہے۔
صدر اوباما نے کہا ہے کہ 'اپنے مشترکہ مستقبل کے بارے میں گفتگو ہوگی۔ اس میں عالمی معشیت شامل ہے جو روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مدد دیتی ہے، یورپی یونین کی مضبوطی اور خوشحالی کو یقینی بنانا، بحر اوقیانوس کے پار نئی تجارتی ساجھے داریاں پیدا کرنا، یوکرین میں روسی جارحیت کا مقابلہ کرنا، پُرتشدد انتہا پسندی کے خطرات کا انسداد اور موسمیاتی تبدیلی'۔
گذشتہ سال روس کو اِس گروپ سے نکال دیا گیا تھا، جس نے یوکرین کے کرائمیا کے خطے کو فتح کرنے کے بعد اُسے ضم کرلیا تھا۔ گروپ آف سیون ممالک کی جانب سے روس کے خلاف وسیع تر تعزیرات لاگو کی ہوئی ہیں، جن کا مقصد روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو اپنا موقف تبدیل کرنے پر مجبور کرنا ہے۔
اِس سے قبل موصول ہونے والی اطلاع میں بتایا گیا تھا کہ دنیا کے سات بڑے صنعتی ملکوں، یعنی 'گروپ آف سیون' کا سالانہ اجلاس جرمنی میں شروع ہوا، جس میں شرکت کے لیے ان ملکوں کے رہنما جرمنی پہنچ چکے ہیں۔
اجلاس میں ماحولیاتی تبدیلی، اقتصادی امور اور دنیا کو درپیش دیگر بحرانوں پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ کانفرنس میں شرکت کے لیے صدر براک اوباما نے اتوار کو جرمن چانسلر آنگلا مرخیل کے ہمراہ ایک مقامی دیہی علاقے کا دورہ کیا۔
کچھ ہی گھنٹوں بعد یہ دونوں رہنما، کینیڈا، فرانس، برطانیہ، اٹلی، جاپان اور یورپی یونین کے رہنماؤں کے ہمراہ طے شدہ اجلاس میں عالمی امور پر بات چیت کریں گے۔
چانسلر مرخیل نے امریکہ کو اپنا دوست اور شراکت دار قرار دیا ہے۔