واشنگٹن —
ایران کے وزیر داخلہ نے پاکستان کو متنبہ کیا ہے کہ ایک باغی گروپ کی طرف سے اغوا کیے گئے سرحدی محافظوں کو چھڑانے کے لیے ایران کی افواج پاکستانی اور افغان علاقوں میں داخل ہوسکتی ہیں۔
عبدالرضا رحمانی فاضلی کا یہ بیان ریاستی ٹیلی ویژن پر نشر ہوا جس سے ایک ہفتہ قبل غیر معروف ’جیش العدل‘ نے اِن پانچ افراد کے ٹوئٹر پر فوٹو شائع کیے، جن کے بارے میں اُس کا دعویٰ ہے کہ یہ سرحدی محافظ ہیں جنھیں پاکستان کی سرحد کے قریب سے پکڑا گیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ایران نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ اس کیس کو ’سختی اور سنجیدگی‘ کے ساتھ طے کرے یا پھر ایران کو اجازت دے کہ وہ اِن ایرانیوں کو افغانستان اور پاکستان کی اندرونی سرزمین کے دور افتادہ خطے سے چھڑا لائے۔
بقول اُن کے، ’بصورت دیگر، اپنے تحفظ کے لیے سلامتی کا نیا خطہ تشکیل دیتے ہوئے ہم ایسی مداخلت کو اپنا حق سمجھتے ہیں‘۔
رائٹرز نے میڈیا رپورٹس کے حوالے سے بتایا ہے کہ عسکریت پسندوں نے اِن محافظوں کو چھ فروری کو ایران کے صوبہٴسیستان بلوچستان سے پکڑا تھا، جنھیں مبینہ طور پر پاکستان کی سرحد کے اندر لے جایا گیا ہے۔
جس علاقے میں یہ واقع پیش آیا، اُس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہاں کشیدگی کی ایک طویل تاریخ ہے، جہاں کی سنی اکثریتی آبادی شیعہ آبادی کی طرف سے زیادتی سے متعلق شکایات کرتی رہی ہے، جس الزام کو ایران مسترد کرتا رہا ہے۔
ایرانی سلامتی افواج اس خطے میں منشیات کے اسمگلروں سے بھی لڑتی رہی ہیں، جو علاقہ پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
ایرانی مسلح افواج کے معاون چیف آف اسٹاف کے حوالے سےکہا گیا ہے کہ اُنھوں نے نیم سرکاری فارس خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ’اس معاملے میں ایران سخت مزاحمت کا مظاہرہ کرے گا‘۔
عبدالرضا رحمانی فاضلی کا یہ بیان ریاستی ٹیلی ویژن پر نشر ہوا جس سے ایک ہفتہ قبل غیر معروف ’جیش العدل‘ نے اِن پانچ افراد کے ٹوئٹر پر فوٹو شائع کیے، جن کے بارے میں اُس کا دعویٰ ہے کہ یہ سرحدی محافظ ہیں جنھیں پاکستان کی سرحد کے قریب سے پکڑا گیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ایران نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ اس کیس کو ’سختی اور سنجیدگی‘ کے ساتھ طے کرے یا پھر ایران کو اجازت دے کہ وہ اِن ایرانیوں کو افغانستان اور پاکستان کی اندرونی سرزمین کے دور افتادہ خطے سے چھڑا لائے۔
بقول اُن کے، ’بصورت دیگر، اپنے تحفظ کے لیے سلامتی کا نیا خطہ تشکیل دیتے ہوئے ہم ایسی مداخلت کو اپنا حق سمجھتے ہیں‘۔
رائٹرز نے میڈیا رپورٹس کے حوالے سے بتایا ہے کہ عسکریت پسندوں نے اِن محافظوں کو چھ فروری کو ایران کے صوبہٴسیستان بلوچستان سے پکڑا تھا، جنھیں مبینہ طور پر پاکستان کی سرحد کے اندر لے جایا گیا ہے۔
جس علاقے میں یہ واقع پیش آیا، اُس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہاں کشیدگی کی ایک طویل تاریخ ہے، جہاں کی سنی اکثریتی آبادی شیعہ آبادی کی طرف سے زیادتی سے متعلق شکایات کرتی رہی ہے، جس الزام کو ایران مسترد کرتا رہا ہے۔
ایرانی سلامتی افواج اس خطے میں منشیات کے اسمگلروں سے بھی لڑتی رہی ہیں، جو علاقہ پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
ایرانی مسلح افواج کے معاون چیف آف اسٹاف کے حوالے سےکہا گیا ہے کہ اُنھوں نے نیم سرکاری فارس خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ’اس معاملے میں ایران سخت مزاحمت کا مظاہرہ کرے گا‘۔