اسلام آباد —
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے ایک بار پھر ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ امن و امان کی بحالی کو یقینی بنایا جائے گا۔
وہ جمعرات کو جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ پہنچے جہاں قانون سازوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان سمیت پورے ملک کو سنگین مسائل کا سامنا ہے اور حکومت ان سے پوری طرح آگاہ ہے۔
گزشتہ ہفتے مستونگ میں شیعہ زائرین کی بس پر ہونے والے ہلاکت خیز بم حملے کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ ایسے واقعات میں ملوث عناصر کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا۔
اس خودکش بم حملے میں عورتوں اور بچوں سمیت 28 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور ان کے لواحقین نے لاشوں کے ہمراہ تین روز تک احتجاجی دھرنا دیا تھا۔ مرنے والوں میں اکثریت کوئٹہ میں آباد شیعہ ہزارہ برادی سے تعلق رکھنے والوں کی تھی جس پر اس سے قبل بھی متعدد ہلاکت خیز حملے کیے جا چکے ہیں۔
انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظیمیں شیعہ ہزارہ برادری پر حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان حملوں کو اس برادری کو ختم کرنے کی سازش قرار دیتی رہی ہیں۔
تاہم وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ ایسی کسی بھی مذموم کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
’’ہم اس سلسلے میں جو بھی کردار ادا کر سکے اس دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے، ہم کریں گے اور میں تو کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔ کسی کمیونٹی کو ختم کرنے کی کوئی بھی جرات نہیں کرسکتا، کرے گا تو یقیناً پھر اس کو اس کی بہت زبردست مخالفت ملے گی، اس کا راستہ روکا جائے گا۔‘‘
وزیراعظم نے اس موقع پر بتایا کہ ایران جانے کے خواہشمند زائرین کے لیے فضائی اور بحری سہولت فراہم کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ کوئٹہ میں صوبائی حکومت اور انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات میں انھوں نے امن و امان کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور صوبے میں اقتصادی ترقی کے معاملات پر بھی بات چیت ہوئی۔
ان کے بقول مرکزی حکومت صوبے کی ترقی کے لیے بھی ہر طرح کا تعاون فراہم کرے گی۔
دریں اثناء کوئٹہ میں افغان طالبان کے ایک حامی مذہبی رہنما مولانا عبداللہ زکری کو نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کردیا۔
مقامی پولیس کے مطابق 80 سالہ مولانا زکری بدھ کی شب نماز کے لیے مسجد جا رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار حملہ آوروں نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔
مولانا زکری ایک طویل عرصے سے کوئٹہ میں مقیم تھے اور بتایا جاتا ہے کہ ان کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ وہ اتحاد العلمائے افغانستان نامی جماعت کے سربراہ بھی تھے۔
ان کے بارے میں موصولہ اطلاعات کے مطابق ان کا شمار افغان طالبان کے امیر ملا عمر کے اساتذہ میں ہوتا تھا تاہم 1996 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے پر انھوں نے کسی طرح بھی حکومتی امور میں حصہ نہیں لیا۔
اس واقعے کی تاحال کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم مبصرین اس واقعے کو افغان طالبان کے لیے باعث اضطراب قرار دے رہے ہیں۔
اسی دوران بلوچستان کے ضلع نصیر آباد میں جمعرات کو پٹرول پمپ پر ایندھن بھروانے کے انتظار میں کھڑی گاڑی میں دھماکے سے کم ازکم ایک شخص ہلاک اور 12 زخمی ہوگئے۔
وہ جمعرات کو جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ پہنچے جہاں قانون سازوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان سمیت پورے ملک کو سنگین مسائل کا سامنا ہے اور حکومت ان سے پوری طرح آگاہ ہے۔
گزشتہ ہفتے مستونگ میں شیعہ زائرین کی بس پر ہونے والے ہلاکت خیز بم حملے کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ ایسے واقعات میں ملوث عناصر کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا۔
اس خودکش بم حملے میں عورتوں اور بچوں سمیت 28 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور ان کے لواحقین نے لاشوں کے ہمراہ تین روز تک احتجاجی دھرنا دیا تھا۔ مرنے والوں میں اکثریت کوئٹہ میں آباد شیعہ ہزارہ برادی سے تعلق رکھنے والوں کی تھی جس پر اس سے قبل بھی متعدد ہلاکت خیز حملے کیے جا چکے ہیں۔
انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظیمیں شیعہ ہزارہ برادری پر حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان حملوں کو اس برادری کو ختم کرنے کی سازش قرار دیتی رہی ہیں۔
تاہم وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ ایسی کسی بھی مذموم کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
’’ہم اس سلسلے میں جو بھی کردار ادا کر سکے اس دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے، ہم کریں گے اور میں تو کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔ کسی کمیونٹی کو ختم کرنے کی کوئی بھی جرات نہیں کرسکتا، کرے گا تو یقیناً پھر اس کو اس کی بہت زبردست مخالفت ملے گی، اس کا راستہ روکا جائے گا۔‘‘
وزیراعظم نے اس موقع پر بتایا کہ ایران جانے کے خواہشمند زائرین کے لیے فضائی اور بحری سہولت فراہم کرنے کے لیے بھی اقدامات کیے جارہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ کوئٹہ میں صوبائی حکومت اور انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات میں انھوں نے امن و امان کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا اور صوبے میں اقتصادی ترقی کے معاملات پر بھی بات چیت ہوئی۔
ان کے بقول مرکزی حکومت صوبے کی ترقی کے لیے بھی ہر طرح کا تعاون فراہم کرے گی۔
دریں اثناء کوئٹہ میں افغان طالبان کے ایک حامی مذہبی رہنما مولانا عبداللہ زکری کو نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کردیا۔
مقامی پولیس کے مطابق 80 سالہ مولانا زکری بدھ کی شب نماز کے لیے مسجد جا رہے تھے کہ موٹر سائیکل پر سوار حملہ آوروں نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کردی۔
مولانا زکری ایک طویل عرصے سے کوئٹہ میں مقیم تھے اور بتایا جاتا ہے کہ ان کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ وہ اتحاد العلمائے افغانستان نامی جماعت کے سربراہ بھی تھے۔
ان کے بارے میں موصولہ اطلاعات کے مطابق ان کا شمار افغان طالبان کے امیر ملا عمر کے اساتذہ میں ہوتا تھا تاہم 1996 میں افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے پر انھوں نے کسی طرح بھی حکومتی امور میں حصہ نہیں لیا۔
اس واقعے کی تاحال کسی نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم مبصرین اس واقعے کو افغان طالبان کے لیے باعث اضطراب قرار دے رہے ہیں۔
اسی دوران بلوچستان کے ضلع نصیر آباد میں جمعرات کو پٹرول پمپ پر ایندھن بھروانے کے انتظار میں کھڑی گاڑی میں دھماکے سے کم ازکم ایک شخص ہلاک اور 12 زخمی ہوگئے۔