پنجاب کے محکمۂ داخلہ نے کہا ہے کہ اگر جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو رہا کیا جاتا ہے تو ان کی سرگرمیاں امن اور سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔
حکام نے یہ بات حافظ سعید کی نظر بندی کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں دائر ایک درخواست کے جواب میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہی ہے۔
رواں سال کے اوائل میں حکومت پنجاب نے حافظ سعید اور ان کے دیگر چار ساتھیوں کو 90 روز کے لیے نظر بند کیا تھا اور گزشتہ ماہ ہی اس میں مزید دو ماہ کی توسیع کر دی گئی تھی۔
جماعت الدعوۃ اور اس سے وابستہ رفاہی تنظیم فلاح انسانیت کو امریکہ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی دہشت گرد تنظیمیں قرار دے چکی ہیں اور پاکستانی حکام کے مطابق بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے ان تنظیموں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ ضروری اقدام کیے گئے ہیں۔
حافظ سعید کے وکیل کا استدلال ہے کہ ان کے موکل کو حکومت نے محض اندیشوں کی بنیاد پر نظر بند کر رکھا ہے جب کہ قانون کے مطابق اگر ان کے خلاف کوئی شواہد موجود نہیں تو انھیں تحویل میں رکھا جانا غیر قانونی ہے۔
اطلاعات کے مطابق محکمہ داخلہ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ حافظ سعید اور ان کے دیگر ساتھیوں کو اس لیے بھی نظر بند کیا گیا ہے کہ وہ جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت کے لیے مبینہ طور پر غیر قانونی ذرائع سے مالی وسائل جمع نہ کر سکیں۔ تاہم حکام کے بقول اس کے باوجود بھی ان تنظیموں نے فنڈ جمع کیے ہیں۔
رواں ماہ کے اوائل میں ہی ایسی اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ بعض کالعدم تنظیمیں بھی عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کی کھالیں جمع کرتی پائی گئیں اور اس بات کی تصدیق ملک کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے بھی کی تھی اور اس پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
عدالت نے حافظ سعید کے وکیل کو محکمہ داخلہ کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے لیے وقت دیتے ہوئے سماعت 19 ستمبر تک ملتوی کر دی ہے۔
جماعت الدعوۃ نے حال ہی میں عملی سیاست میں قدم رکھنے کے لیے 'ملی مسلم لیگ' کے نام سے سیاسی جماعت بھی بنائی ہے۔
مختلف حلقوں کی طرف سے ایسے خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ حکومت بظاہر ان تنظیموں کے خلاف کارروائی میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی اور بھارت بھی حافظ سعید کی نظر بندی کو صرف آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترداف قرار دیتا ہے۔ لیکن پاکستان ان دعوؤں اور تحفظات کو مسترد کرتا ہے۔
بھارت نومبر 2008ء میں ممبئی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کا الزام کالعدم لشکر طیبہ پر عائد کرتا ہے اور اس کے بقول جماعت الدعوۃ اسی تنظیم کا دوسرا چہرہ اور ان حملوں کے پیچھے حافظ سعید مبینہ طور پر ملوث تھے۔
لیکن حافظ سعید تواتر سے ان الزامات سے انکاری رہے ہیں۔
سلامتی کے امور کے تجزیہ کار اور سابق وفاقی سیکرٹری داخلہ تنسیم نورانی کے خیال میں پاکستانی حکام ان تنظیموں کے خلاف ملکی قوانین کو مدنظر رکھ کر ضروری کارروائی کر رہے ہیں اور حافظ سعید کی نظر بندی کو جاری رکھنے کا موقف بھی حکام کی ان ہی کاوشوں کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔
"دیکھیں اگر پنجاب حکومت مزاحمت نہ کرتی، اس کو چھوڑ دیا جاتا تو فوراً سرخی بن جاتی ہے کہ دہشت گرد کو رہا کر دیا۔ تو ضروری ہے کہ سزا اگر نہیں بھی ہو پاتی عدم شواہد کی بنا پر تو جو حفاظتی تحویل میں لینے کے اختیارات ہیں حکومت کے پاس وہ استعمال کر کے کم از کم ان کو مرکزی دھارے سے دور رکھا جائے جب تک کہ اس کا کوئی مقدمہ یا سزا کا سلسلہ نہیں بنتا۔"
ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف کالعدم تنظیموں بلکہ عام جرائم میں بھی شواہد جمع کرنے، تفتیش کے عمل اور پاکستان کے نظام عدل میں کچھ سقم ہیں جنہیں دور کرنے کے لیے اصلاحات ضروری ہیں۔