عید الاضحیٰ پر قربانی کے جانوروں کی کھالیں جمع کرنے سے متعلق حکومت کی واضح ہدایات کے باوجود، ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ بعض کالعدم تنظیموں سے وابستہ رفاہی تنظیموں نے بھی عید قرباں کے موقع پر کھالیں جمع کی ہیں۔
حکومت کی طرف سے پہلی مرتبہ باقاعدہ طور پر متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ کالعدم تنظیموں کے لوگوں کو کھالیں جمع نہ کرنے دی جائیں اور عوام سے بھی درخواست کی گئی تھی کہ وہ ایسے اداروں کے علاوہ اُن مدارس کو یہ کھالیں عطیہ نہ کریں جو کہ باضابطہ طور پر رجسٹر نہیں ہیں۔
عید الاضحیٰ کے موقع پر ہر سال اربوں روپے کی کھالوں کا کاروبار ہوتا ہے اور قربانی کے جانوروں کی کھالوں کو جمع کرنے والے اس پیسے سے اپنی فلاحی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ لیکن، باور کیا جاتا ہے کہ کالعدم تنظیمیں رفاہی کاموں کی آڑ میں ملنے والے عطیات کو اپنی مذموم کارروائیوں کو تقویت دینے کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق لاہور اور پنجاب کے بعض جنوبی اضلاع میں جماعت الدعوۃ، ملت اسلامیہ، سپاہ صحابہ اور تحریک جعفریہ کے لوگ کھلے عام لوگوں سے قربانی کی کھالیں حاصل کرنے کی مہم چلاتے رہے۔
اس بارے میں پنجاب پولیس کا یہ موقف بھی سامنے آیا ہے کہ مختلف علاقوں سے اس کام میں مبینہ طور پر ملوث درجنوں افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔
وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے بھی ان اطلاعات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی تنظیموں سے متعلق پاکستان مزید چشم پوشی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
نجی ٹی وی چینل 'جیو نیوز' کے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "وزارت داخلہ نے پہلی مرتبہ اشتہار دیا تھا کہ ''یہ کالعدم تنظیمیں ہیں ان کو آپ کھالیں نہ دیں۔ اس کے باوجود بھی اکا دکا واقعات ہوئے ہیں، جہاں ان کو اجازت دی گئی ہے مجھے پتا ہے کہ فلاں فلاں جگہ پر ان کو اجازت دی گئی ہے''۔
اُنھوں نے کہا کہ ''ہمیں اپنے گھر کو ٹھیک کرنا ہے۔ جب تک ہم ان تنظیموں سے آنکھیں چھپاتے رہیں گے ہمیں اس قسم کی شرمندگی کا سامنا ضرور کرنا پڑے گا۔"
پاکستان میں سیاسی و سماجی حلقوں کی طرف سے ایک عرصے سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ ایسی تنظیمیں جو اپنی غیر قانونی اور مبینہ تخریبی سرگرمیوں کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے لیے خفت کا باعث بن رہی ہیں ان کے خلاف موثر کارروائی کی جائے۔
مبصرین یہ کہتے ہیں کہ ایسی تنظیموں کو صرف کاغذوں میں ہی کالعدم قرار دیا جانا کافی نہیں، بلکہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے اقدام کو یقینی بنائے کہ ان تنظیموں سے وابستہ افراد کسی نئے نام سے اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع نہ کر سکیں۔