پنجاب کے گورنرسلمان تاثیر پر منگل کو قاتلانہ حملہ دارالحکومت کے ایف سکس سیکٹر میں اُس وقت کیا گیا جب وہ ایک ریستوران میں کھانا کھانے کے بعد اپنی گاڑی میں سوار ہورہے تھے۔ حملہ آور نے ان پر سامنے سے گولیاں چلائیں جو سلمان تاثیر کے سینے اور پیٹ میں لگیں ۔ اُنھیں شدید زخمی حالت میں اسلام آباد کے پولی کلینک ہسپتال میں منتقل کیا گیا لیکن ڈاکٹروں کے مطابق وہ راستے میں ہی دم توڑ چکے تھے۔
وزیر داخلہ رحمن ملک نے صحافیوں کو بتایا کہ حملہ کرنے والے شخص کا تعلق پولیس کے کمانڈو یونٹ سے تھا جسے مقتول کی حفاظت پر مامور کیا گیا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ ایلیٹ فورس کے اس اہلکار کو پہلے بھی کئی مرتبہ گورنر سلمان تاثیر کی حفاظت پر مامور کیا گیا تھا اور پنجاب پولیس سے یہ وضاحت طلب کی جائے گی کہ آیا اُس کی مکمل چھان بین کی گئی تھی یا نہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ منگل کی صُبح ایوان صدر میں گورنر پنجاب نے صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی تھی جس کے بعد وہ سینٹ گئے اور پھر وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ سے ملاقات کے بعد جب کوہسار مارکیٹ میں ٹیبل ٹاک نامی ریستوران سے کھانا کھا کرجونہی وہ واپس اپنی گاڑی پر سوار ہونے لگے تو اُن کے ایک محافظ نے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ ’’ گولیاں چلانے کے بعد اس نے اپنا اسلحہ نیچے رکھ کر اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کردیا اور اعتراف کیا کہ میں نے انھیں (گورنر کو) مارا کیونکہ اُنھوں نے ناموس رسالت کو کالا قانون کہا تھا۔“
پولیس نے مقتول گورنر کی حفاظت پر مامور دوسرے اہلکاروں کو بھی حراست میں لے رکھا ہے۔ وفاقی وزیر نے بتایا کہ سلمان تاثیر کے 26سالہ قاتل کا تعلق دارالحکومت کے مضافاتی علاقے بارہ کہو سے ہے اور اُس نے تفتیش کاروں کو بتایا ہے کہ گھرسے روانہ ہوتے وقت اُس نے گورنرسلمان تاثیر کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ کیوں کہ نہ صرف اُنھوں نے ناموس رسالت کے قانون کو’ کالا قانون‘ قرار دیا تھا بلکہ وہ آسیہ بی بی کی رہائی کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔
پیپلز پارٹی کی ترجمان فوزیہ وہاب نے کہا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کے حکم پر پیپلز پارٹی کی تمام تقریبات منسوخ کی جارہی ہیں اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے سلمان تاثیر کے قتل پر تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔
سلمان تاثیر کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے مئی 2008ء میں پنجاب کا گورنر مقرر کیا تھا اور اُن کا شمار صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔
گذشتہ سال کے آخر میں پاکستان کی ایک عدالت نے توہین رسالت کے جرم میں جب ایک عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو موت کی سزا سنائی گئی تو سلمان تاثیر نے جیل میں جا کر اس خاتون سے ملاقات کی اور کہا کہ وہ ملک کی اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی آسیہ بی بی کی رحم کی اپیل خود صدر زرداری تک پہنچائیں گے۔
مقتول گورنر نے بارہا اس توقع کا اظہار بھی کیا کہ آسیہ بی بی کی سزا کو معاف کردیا جائے گا کیونکہ وہ بے گناہ ہے۔ لیکن اُن کے ان اقدامات پر پاکستان کی مذہبی جماعتوں کی طرف سے سخت الفاظ میں مذمت کی جاتی رہی۔
اقلیتی اُمور کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ گورنر پنجاب کے قتل میں ’’مسلمان انتہا پسند‘‘ ملوث ہیں۔ ”توہین رسالت کے خلاف قانون میں اصلاحات کے بارے میں ہمارے اصولی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی کیوں کہ یہ اقلیتوں کے خلاف ایک امتیازی قانون ہے“۔
اُنھوں نے مطالبہ کیا کہ جن انتہا پسند مذہبی تنظیموں کی طرف سے سلمان تاثیر کو قتل کرنے کے فتوے جاری کیے گئے تھے اُنھیں بھی اس قتل کی تحقیقات میں شامل کیا جائے۔