پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل کی اگرچہ ہر سطح پر مذمت کی گئی ہے اورکیمرے کے سامنے آکر مذمت کرنے والے سیاسی و مذہبی رہنماوٴں کی بھی کوئی کمی نہیں تاہم عوامی سطح پر کیا جانے والا مشاہدہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ عوامی طبقہ ،قتل پردوہری رائے رکھتا ہے۔ایک قتل کی مذمت کرتا ہے تو دوسرے کے نزدیک یہ قتل سخت ردعمل کا نتیجہ ہے۔
توہین رسالت قانون میں ترمیم کے مخالف عوام کے نزدیک ملک ممتاز حسین قادری نے حوصلے مند اور جرات مندانہ اقدام کیا ہے۔ ان کی نظر میں مذکورہ قانون میں تبدیلی کی مخالفت کا اس سے زیادہ موثر اقدام اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ اس طبقے کی رائے ہے کہ اگرچہ ملکی قانون اس کی اجازت نہیں دیتے کہ مخالف رائے رکھنے والے کو قتل کردیا جائے مگر ملکی قانون کی راہ داریاں اتنی طویل ہیں کہ سفر طے کرتے کرتے کئی عشرے گزرجاتے ہیں جبکہ یہ معاملہ فوری عمل کا متقاضی تھا۔
سلمان تاثیر کی عوامی سطح پر مخالفت کا آغاز توہین رسالت کی مرتکب خاتون آسیہ بی بی کی حمایت میں بیان سے ہوا۔ سلمان تاثیر نے نہ صرف آسیہ بی بی سے جیل میں جاکر ملاقات کی تھی بلکہ اس کی رہائی کا یقین بھی دلایا تھا۔ سلمان تاثیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ آسیہ بی بی کو عدالت سے ملنے والی سزائے موت کو ختم کرنے کے لئے صدر سے رحم کی اپیل کریں گے اور انہیں امید ہے کہ صدر ان کی سزا معاف کردیں گے۔
سلمان تاثیر کے قتل کی اطلاع کے فوری بعد شہر میں ایس ایم ایس کی بھر مار ہوگئی۔ ساڑھے چار بجے کے آس پاس قتل کی اطلاع سے متعلق ایس ایم ایس کی گردش نوٹ کی گئی جبکہ اس کے بعد پے در پے ایسے ایس ایم ایس گردش کرنے لگے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ گویا عوامی آراء یہ ہو کہ سلمان تاثیر کو ان کے بیانات کی سزا ملی ہے۔
ایک مذہب پرست کا کہنا ہے کہ آسیہ بی بی کے حق میں سابق وزیراطلاعات شیری رحمن نے باقاعدہ تحریری درخواست بھی جمع کرائی تھی اور تبھی سے ان پر بھی شدت پسندوں کی جانب سے تنقید کی جارہی ہے۔ اس واقعہ کے بعد شیری رحمن کی حفاظت کے لئے بھی سیکورٹی سخت کی جانی چاہئے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں توہین رسالت قانون میں ممکنہ ترمیم کے خلاف متعدد مذہبی جماعتوں کی جانب سے ریلیاں ، جلسہ جلوس ، احتجاجات اور ہڑتالیں بھی کی گئیں ۔ 31 اگست کو بھی اس حوالے سے ملک بھر میں ہڑتال کی گئی جس کی تاجروں اور ٹرانسپورٹرز کی جانب سے بھی حمایت کی گئی ۔ اس حوالے سے رواں ماہ کی نو تاریخ کو بھی ایک جلسے کے انعقاد کا اعلان کیا گیا ہے۔
عوام کا ایسا طبقہ جوان ریلیوں اور جلسے جلوس کا مخالف ہے اس کا کہنا ہے کہ سلمان تاثیر کا قتل دراصل اس ماحول میں پروان چڑھا جو ان جلسے جلوسوں کے انعقاد کی وجہ سے اس وقت ملک میں موجود ہے۔
دوسری جانب ملک کے مختلف شہروں میں قتل کے خلاف عوام کے احتجاجات بھی بڑے پیمانے پر جاری ہیں۔