رسائی کے لنکس

’شیری رحمن ناموس رسالت ایکٹ میں ترامیم کا بل واپس لینے پر آمادہ‘


پاکستان میں توہین رسالت کے خلاف قانون میں ترامیم کے خلاف مظاہرے میں شریک افراد (فائل فوٹو)
پاکستان میں توہین رسالت کے خلاف قانون میں ترامیم کے خلاف مظاہرے میں شریک افراد (فائل فوٹو)

شیری رحمان نے سول سوسائٹی کی نمائندگی کرنے والی تنظیموں کے ساتھ مل کر اس بل کے حق میں گزشتہ سال کے اواخر میں ایک بھر پور مہم شروع کی تھی جس پر ملک کی مذہبی جماعتوں کی طرف سے اُن پر تنقید کی بھی کی جاتی رہی۔ اس مہم کی تیز ی کی ایک بڑی وجہ ننکانہ کی ایک عدالت کی طرف سے نومبر میں پانچ بچوں کی ماں ایک عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے جرم میں دی جانے والی سزائے موت تھی۔ اس خاتون کا موقف ہے کہ وہ بے گناہ ہے اور ذاتی دشمنی کا بدلہ لینے کے لیے اُس پر گاؤں کی مسلمان خواتین نے توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگایا۔

وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی رکن شیری رحمن نے اپنی جماعت کی پالیسی کا احترم کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے اُس بل کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے جس میں ناموس رسالت ایکٹ میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔

اُنھوں نے ایک بار پھر کہا کہ حکومت اس قانون میں تبدیلی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی اور ان مجوزہ ترامیم کا جائزہ لینے کے لیے نا تو اُنھوں نے خود اور نہ ہی قومی اسمبلی کی سپیکر نے کوئی کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے۔

بدھ کو جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے ان خیالات کا اظہار ایک پارلیمانی وفد سے ملاقات میں کیا۔ اُنھوں نے مذہبی جماعتوں کوایک بار پھر پیشکش کی کہ وہ ناموس رسالت ایکٹ کے غلط استعمال کی حوصلہ شکنی کے لیے پالیسی بنانے میں حکومت کی مدد کریں۔

وزیراعظم یوسف رضا گیلانی
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی

پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی اور سابق وزیر اطلاعات شیری رحمن نے توہین رسالت کے خلاف پاکستان کے اس متنازع قانون میں جرم ثابت ہونے پر دی جانے والی سزائے موت کے خاتمے ، تحقیقات پولیس کے اعلیٰ افسر سے کرانے اور الزامات غلط ثابت ہونے پر مقدمہ درج کرانے والے کے خلاف سخت سزائیں تجویز کی تھیں ۔

اُنھوں نے سول سوسائٹی کی نمائندگی کرنے والی تنظیموں کے ساتھ مل کر اس بل کے حق میں گزشتہ سال کے اواخر میں ایک بھر پور مہم شروع کی تھی جس پر ملک کی مذہبی جماعتوں کی طرف سے اُن پر تنقید کی بھی کی جاتی رہی۔ اس مہم کی تیز ی کی ایک بڑی وجہ ننکانہ کی ایک عدالت کی طرف سے نومبر میں پانچ بچوں کی ماں ایک عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے جرم میں دی جانے والی سزائے موت تھی۔ اس خاتون کا موقف ہے کہ وہ بے گناہ ہے اور ذاتی دشمنی کا بدلہ لینے کے لیے اُس پر گاؤں کی مسلمان خواتین نے توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگایا۔

پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر نے اس عیسائی خاتون سے جیل میں جا کر ملاقات اور صدارتی معافی دلانے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اُنھوں نے اس موقع پر ناموس رسالت ایکٹ کا نام لیے بغیر کہاتھا کہ ”قائد اعظم کے پاکستان میں ایسے کالے قوانین کی کوئی گنجائش نہیں۔“

اُن کے اس بیان نے اسلامی تنظیموں کو مشتعل کردیا اور مساجد میں اُن کے قتل کے فتوے بھی جاری کیے گئے جو بالاآخر اسلام آباد میں اُس وقت اُن کی موت کا باعث بنے جب اُن کے اپنے ہی ایک سرکاری محافظ نے انھیں گولیوں سے چھلنی کردیا۔

اس واقعہ کے بعد توہین رسالت کے خلاف قانون میں مجوزہ تبدیلیوں کے خلاف مہم بظاہر کمزور پڑ گئی اور مذہبی جماعتوں کی طرف سے احتجاجی مظاہروں میں ناصرف سلمان تاثیر کے قاتل کو ”اسلام کا ہیرو“ قرار دیا گیا بلکہ شیری رحمن کے قتل کے فتوے بھی جاری کیے گئے۔

اس پیش رفت کے بعد شیری رحمن سلامتی کے خدشات کے باعث منظر عام سے ہٹ گئیں۔ اقلیتوں کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی بھی شیر ی رحمن کے مہم میں پیش پیش رہے لیکن بعد میں اُنھوں نے بھی چپ سادھ لی ۔ وفاقی وزیر کے بقول انھیں بار بار جان سے ماردینے کی دھمکیاں اب بھی دی جارہی ہیں۔

اس کے علاوہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی باربار یہ بیان دیا کہ حکومت ناموس رسالت ایکٹ کو تبدیل نہیں کرنا چاہتی۔ انھوں نے اپنی ہی جماعت کے ممبران بشمول مقتول گورنر تاثیر، شیری رحمن اور شہباز بھٹی کے توہین رسالت کے خلاف قانون میں ترامیم کو اُن کی ذاتی رائے قرار دیا۔

ناقدین کے خیال میں ملک کی سیاسی قیادت کی طرف سے ان بیانات نے بظاہر روشن خیال سمجھی جانے والی پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اُن رہنماؤ ں کو تنہا چھوڑ دیاہے جو ناموس رسالت ایکٹ میں ترامیم کو پاکستان میں انتہا پسند مذہبی رجحانات کی بیخ کنی کے لیے ناگزیر سمجھتے ہیں۔


XS
SM
MD
LG