وفاقی وزیر تعلیم سردار آصف احمد علی نے پاکستان میں رائج ناموس رسالت ایکٹ کوانسان کا بنایا ہوا اور ایک نامکمل قانون قراردیتے ہوئےبالواسطہ طور پرمذہبی جماعتوںخصوصاً میڈیا کو بھی گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کا ذمے دار ٹھرایا ہے۔
منگل کو اسلام آباد میں ’’اسلام اور ریاست‘‘ کے عنوان پر دو روزہ بین الا قوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےانھوں نے مقتول گورنر کے بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اسلام یا پیغمبر اسلام کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کی تھی بلکہ اس قانون میں ایک فوجی آمر کی متعارف کردہ تبدیلیوں کو درست کرنے کی بات کی تھی۔
وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئین میں اب تک انیس ترامیم کی جاچکی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان کا بنایا ہوا کوئی بھی قانون اَیسا نہیں جس میں ترمیم یا درستگی کی ضرورت نا ہو اورصرف قرآن و سنت ہی وہ قوانین ہیں جومکمل ہیں۔
‘‘سلمان تاثیر نے ایک فوجی جنرل ضیاء الحق کے بنائے ہوئے قانون پر تنقید کی تھی اور میں بھی اس پر تنقید کر رہا ہوں’’۔
انھوں نے کہا ‘‘اگر ایک انسان کے بنائے ہوئے قانون کو کوئی دوسرا شخص نا مکمل قرار دے تو یہ اظہار رائے ہے’’۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ انھیں قرآن یا حدیث سے ایسی کوئی واضح اور ٹھوس دلیل نہیں ملتی جو اس قانون اوراس کے تحت سزائے موت کو اسلامی قرار دے۔
آصف احمد علی کا کہنا تھا کہ سلمان تاثیر کے قتل سے بھی زیادہ خطر ناک بات یہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد مذہبی جماعتوں نے مقتول گورنر ہی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ بھی کہا کہ جس کسی نے توہین رسالت قانون میں ترمیم کی جراٴت کی اسے کافر قرار دے دیا جائے گا۔
انھوں نے بظاہر انتہا پسند مذہبی عناصر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ ایک ’’چھوٹی سے اقلیت‘‘ مذہب کے نام پر پورے ملک کو ایسے رویوں کی طرف دھکیل رہی ہے جو انتہائی خطرناک ہیں اور جن کا اسلام کی روح سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
توہین رسالت کے خلاف ملک کے قانون میں خامیوں کا ذکر کرتےہوئے آصف احمد علی نے کہا کہ اگر کوئی جائیداد کے تنازعے یا ذاتی دشمنی کی بنا پر کسی شخص پر توہین رسالت کا محض الزام لگائے تو پولیس ملزم کو حراست میں لے کر جیل بھیج دیتی ہے اور پھر جیل میں کوئی اسے قتل کر دیتا ہے یا اگر ملزم جیل سے رہا ہو جائے تو اسے باہر آنے پر قتل کر دیا جاتا ہے۔
‘‘اس طرح کے واقعات میں اب تک دو سو چالیس سے زیادہ مسلمان ہلاک ہو چکے ہیں جن میں مقد مات کے جج اور گواہان بھی شامل ہیں’’۔
وزیر تعلیم نے متنبہ کیا کہ اگر اس قانون کے غلط استعمال کو نہ روکا گیا تواس کے خطرناک نتائج کا شکار صرف پاکستان میں اقلیتی ہی نہیں بلکہ اکثریتی مسلمان برادری بھی ہوگی۔