بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل وڈھ میں ایک ہندو تاجر کی ہلاکت کے بعد لوگوں نے احتجاج کرتے ہوئے کوئٹہ سے کراچی کو ملانے والی قومی شاہراہ بلاک کر دی جسے انتظامیہ کی یقین دہانی کے بعد کھول دیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق وڈھ کے علاقے شاہی بازار میں ہندو تاجر نانک رام ہفتے کو اپنی دکان میں موجود تھے جب شام پانچ بجے کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے ان پر فائرنگ کر دی۔ فائرنگ سے نانک رام شدید زخمی ہو گئے تھے۔
نانک رام کے کزن مکیش نے وائس آف امریکہ کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ انہیں شام کے وقت اطلاع ملی کہ نانک رام پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے۔ موقع پر پہنچ کر انہوں نے نانک رام کو خضدار کے سول اسپتال منتقل کیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے۔
مکیش کے بقول، "نانک رام وڈھ میں 'پیپسی' کی فرنچائز چلاتے تھے اور ان کی کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں تھی۔"
مکیش نے بتایا کہ وہ اور ہندو برادری کے دیگر خاندان کئی برسوں سے وڈھ میں پرامن طور پر رہ رہے ہیں۔ وڈھ کے علاقے میں ہندو کمیونٹی کے کسی فرد کو قتل کرنے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
پولیس نے واقعے کی ایف آئی آر درج کرتے ہوئے قانونی کارروائی شروع کی ہے۔ البتہ اب تک کسی فرد کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔
دوسری جانب مقامی سیاسی جماعتوں، تاجروں اور شہریوں نے نانک رام کی لاش کے ہمراہ وڈھ میں احتجاجی مظاہرہ کیا اور بازاروں میں شٹ ڈاؤن ہڑتال بھی کی گئی۔
خضدار میں بھی واقعے کے خلاف لوگوں نے احتجاج کیا اور کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والی قومی شاہراہ کو ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بلاک کر دیا۔ بعد ازاں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے قاتلوں کی گرفتاری کی یقین دہانی پر مظاہرین نے احتجاج ختم کر دیا۔
خضدار کے ایک سابق کونسلر اور ہندو پنچائیت کے سابق صدر سریش کمار وڈھ میں ہونے والے اس واقعے کو بلوچستان میں بسنے والی ہندو برادری کے لیے خوف کی علامت سمجھتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سریش کمار نے بتایا کہ انہیں یہ معلوم ہوا ہے کہ نانک رام سے پہلے بھی کچھ لوگوں نے بھتہ وصول کرنے کی کوشش کی تھی مگر انہوں نے انکار کر دیا تھا۔
سریش کمار کے بقول "کچھ لوگ دوبارہ خضدار کے امن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہندو کمیونٹی کے خلاف ایک سنگین واقعہ ہے۔ حکومت فوری طور پر نانک رام کے قاتلوں کو گرفتار کرے۔"
وڈھ بلوچستان کے پہلے وزیرِ اعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل کا آبائی علاقہ ہے جہاں عرصہ دراز سے ہندو برادری پر امن طور پر رہ رہی ہے۔
بلوچستان کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے بھی اس واقعے کی مذمت کی ہے اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے 26 جولائی کو صوبے میں احتجاج کی کال بھی دی ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ایسے واقعات سے ایک بار پھر امن و امان کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے بلوچستان ریجن کے وائس چیئرمین حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ہندو، عیسائی، سکھ اور دیگر اقلیتیں صدیوں سے آباد ہیں۔
ان کے بقول ماضی میں مسیحی برادری کے چرچ پر بھی حملہ ہوا تھا اور اس کے علاوہ بلوچستان میں آباد ہندو کمیونٹی کے لوگوں کو قتل اور اغوا کرنے کے واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں۔ اس لیے اقلیتی برادریوں کو سیکیورٹی کے حوالے سے کافی تحفظات ہیں۔
حبیب طاہر ایڈووکٹ کے مطابق بلوچستان میں حالیہ برسوں میں اقلیتی کمیونٹی کے خلاف کوئی بڑا واقعہ تو رونما نہیں ہوا لیکن ہندو تاجروں کو تاوان کی غرض سے اغوا یا قتل کرنے کے اکا دکا واقعات رونما ہوئے ہیں جس پر انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی تشویش ہے۔
واضح رہے کہ بلوچستان کے علاقوں خضدار، قلات، لسبیلہ، مستونگ، ژوب، کولپور، سبی، چمن ڈیرہ اور بگٹی سمیت دیگر علاقوں میں عرصہ دراز سے بڑی تعداد میں ہندو کمیونٹی آباد ہے جن میں سے اکثریت تجارت پیشہ ہیں۔
ماضی میں بھی مختلف علاقوں میں ہندو تاجروں کے قتل اور اغوا کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ہندو تاجر نانک رام کے لواحقین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان کے قاتلوں کو فی الفور گرفتار کریں۔