پاکستان کے صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے نزدیک 'وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز' کا کیمپ گزشتہ کئی ماہ سے لگا ہوا ہے جہاں آویزاں لاپتا افراد کی تصاویر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
کیمپ میں لگنے والی ایک نئی تصویر حسان قمبرانی کی بھی ہے جن کی بہن حسیبہ قمبرانی بھائی کی جبری گمشدگی کے بعد سے ان کی رہائی کے لیے سرگرداں ہیں۔
بلوچستان کے سیکڑوں لاپتا افراد کے لواحقین کئی برس سے اپنے پیاروں کی واپسی کے منتظر ہیں۔ موسم اور حالات خواہ کیسے ہی ہوں، کوئٹہ پریس کلب کے باہر لگے اس کیمپ میں بیٹے کی واپسی کے منتظر ضعیف باپ سے لے کر شیر خوار بچوں کی موجودگی لواحقین کی درد بھری کہانی سناتی ہے۔
پاکستان کے مقامی ذرائع ابلاغ میں لاپتا افراد کے بارے میں خبریں بہت کم شائع ہوتی ہیں۔ لیکن سوشل میڈیا پر لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کی ویڈیوز بعض اوقات وائرل ہو جاتی ہیں۔
لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے حال ہی میں کوئٹہ میں ہونے والے ایک احتجاجی مظاہرے میں شریک اور اپنے بھائی کی گمشدگی کے غم سے نڈھال حسیبہ قمبرانی کی ویڈیو بھی اسی طرح سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر وائرل ہوئی جس میں وہ انتہائی اضطراب اور بے بسی کے عالم میں اپنے بھائی کی بازیابی کے لیے فریاد کر رہی تھیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حسیبہ قمبرانی نے بتایا کہ ان کے خاندان کے کئی افراد لاپتا ہو چکے ہیں جس کے بعد اُن کی مسخ شدہ لاشیں ملتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اُن کے بڑے بھائی سلمان قمبرانی بلوچستان ہائی کورٹ میں مالی تھے۔ انہیں جولائی 2015 میں ان کے چچا زاد بھائی گزین قمبرانی کے ہمراہ لاپتا کیا گیا اور بعد میں دونوں کی لاشیں مسخ کر کے پھینک دی گئی تھیں۔
حسیبہ قمرانی کا کہنا تھا کہ کہ اُن کے چھوٹے بھائی حسان قمبرانی کو فروری 2020 میں اُس وقت لاپتا کیا گیا جب وہ اپنے دوست حزب اللہ قمبرانی کے ہمراہ موجود تھے۔ اس کے بعد سے ان کا کچھ پتا نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ حسان قمبرانی محکمۂ صحت بلوچستان میں نوکری کرنے کے ساتھ ساتھ پرسٹن یونیورسٹی سے بی بی اے بھی کر رہے تھے۔
حسیبہ قمبرانی نے کہا کہ وہ بھی دیگر افراد کی طرح پاکستان کی شہری ہیں لہذا پاکستان کی عدالتیں اُن کی آواز سُنیں۔
ان کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ اگر ان کے بھائی پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے اور جرم ثابت ہونے پر عدالت انہیں جو بھی سزا دے، انہیں منظور ہو گی۔
بلوچستان میں لاپتا افراد کے لواحقین کی تنظیم 'وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز' کے اعداد و شمار کے مطابق صوبے میں بلوچ نوجوانوں کی جبری کمشدگیوں کا سلسلہ 20 سال قبل 2000 میں شروع ہوا تھا۔ یہ تنظیم دعویٰ کرتی ہے کہ بلوچستان سے گزشتہ 20 برسوں کے دوران کم و بیش 53 ہزار سے زائد افراد لاپتا کیے گئے ہیں۔
'وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز' کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بلوچستان میں لوگوں کی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ تو دو دہائیوں سے جاری ہے تاہم رواں سال اس میں ایک بار پھر تیزی آئی ہے۔
ماما قدیر بلوچ کے مطابق بلوچستان میں 2020 میں آپریشن بھی زیادہ ہو رہے ہیں جب کہ مسخ شدہ لاشیں ملنے کے واقعات میں بھی تیزی آئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ رواں سال کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران ایک ہزار سے زائد افراد لاپتا ہو چکے ہیں۔
لاپتا افراد کی تعداد سے متعلق 'وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز' کے دعوؤں کو حکومت تسلیم نہیں کرتی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ لاپتا افراد کی تعداد کئی گنا کم ہے جن کی رہائی کے لیے کوشش کی جا رہی ہے۔
حکومت نے سپریم کورٹ کے حکم پر لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے کمیشن بھی تشکیل دیا تھا۔ اس کمیشن کا دعویٰ ہے کہ وہ اب تک سیکڑوں لاپتا افراد کو بازیاب کرا چکا ہے جب کہ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 31 مئی 2020 تک 4544 لاپتا افراد کے کیسز نمٹائے جا چکے ہیں۔
کمیشن کی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ رواں سال مئی میں کمیشن کو لاپتا افراد کے 13 نئے کیسز موصول ہوئے جس کے بعد ملک میں لاپتا افراد کی مجموعی تعداد 6674 ہوگئی ہے۔
دوسری جانب بلوچستان کی صوبائی حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ حالیہ مہینوں میں بہت سے لوگ گھروں کو واپس لوٹے ہیں جو بلوچستان کی حکومت کی بڑی کامیابی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حکومتِ بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے کہا کہ اب حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں اور آئے روز لاپتا افراد بازیاب ہو رہے ہیں جو ایک خوش آئند بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کی کوشش ہے کہ مزید لاپتا افراد بھی جلد گھر واپس لوٹیں۔
یاد رہے کہ بلوچستان میں حزبِ اختلاف اور وفاق میں حکومت کی اتحادی جماعت 'بلوچستان نیشنل پارٹی' کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کی جانب سے مطالبات پورے نہ ہونے پر گزشتہ دنوں حکمران اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔
اختر مینگل کا کہنا تھا کہ حکومت ان کے پیش کردہ چھ نکات پر عمل نہیں کر رہی جن میں سرِ فہرست نکتہ لاپتا افراد کی بازیابی ہے۔
اختر مینگل نے کہا تھا کہ ہم مانتے ہیں کہ کچھ لوگ بازیاب ہو کر گھروں کو لوٹے ہیں مگر جتنے لوگ بازیاب ہوئے ہیں ان میں سے کئی کو دوبارہ جبری طور پر لاپتا کیا جا رہا ہے۔
ملکی اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان میں جبری طور پر گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف آواز اٹھاتی رہی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق بعض واقعات میں ریاستی ادارے جبری گمشدگیوں کے واقعات میں ملوث ہیں۔
امریکی حکومت کی حال ہی میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جبری گمشدکیوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ کسی بھی جرم میں ملوث جبری طور پر لاپتا کیے گئے افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے جب کہ اُن کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کی جائے۔