رسائی کے لنکس

پرویز مشرف کو سزائے موت سنانے والے جسٹس وقار احمد سیٹھ کون ہیں؟


جسٹس وقار احمد سیٹھ (فائل فوٹو)
جسٹس وقار احمد سیٹھ (فائل فوٹو)

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں تفصیلی فیصلے کے بعد ملک بھر کے ذرائع ابلاغ، سیاسی اور سماجی حلقوں میں جاری بحث کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

پاکستان کے سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں انہیں سزائے موت دینے والے دو ججوں میں سے ایک پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ ہیں۔ تفصیلی فیصلے کے بعد وہ ملک بھر کے ذرائع ابلاغ، سیاسی اور سماجی حلقوں میں جاری بحث کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

آبائی طور پر خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے وقار احمد سیٹھ مارچ 1961 میں پیدا ہوئے۔ آبائی شہر میں مختصر وقت گزارنے کے بعد انہوں نے زندگی کا زیادہ تر عرصہ پشاور میں گزارا۔

پشاور صدر کی حدود میں واقع کنٹونمنٹ پبلک اسکول سے 1977 میں میٹرک کے بعد انہوں نے فیڈرل گورنمنٹ کالج سے انٹر میڈیٹ کیا۔

اسلامیہ کالج پشاور سے بی ایس سی کرنے کے بعد خیبر لا کالج سے 1985 میں ایل ایل بی کیا۔ وہ وکیل کی حیثیت سے 1990 میں پشاور ہائی کورٹ بار کے ممبر بن گئے۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ سروسز ٹریبونل، بینکنگ اور مالیاتی کمپنیوں کے مقدمات کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔

چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ 2008 میں بینکنگ کورٹ کے جج بنے جبکہ 2011 میں ایڈیشنل جج کی حیثیت سے پشاور ہائی کورٹ کے ججوں کی فہرست میں شامل ہوئے۔ گزشتہ سال 28 جون کو وہ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے تھے۔

زمانۂ طالب علمی سے لے کر وکیل بننے اور پھر جج اور چیف جسٹس کی تعیناتی تک جسٹس وقار احمد انتہائی خاموش طبع اور کم گو شخصیت کے حامل رہے ہیں۔

گو کہ نظریاتی طور پر وہ جمہوریت کے حامی اور ترقی پسند حلقوں کے قریب رہے ہیں لیکن وہ کبھی بھی طلبہ سیاست میں متحرک نہیں رہے۔ اسی بنیاد پر انہوں نے کبھی وکلا کی سیاست اور یونین میں بھی حصہ نہیں لیا۔

پشاور کے ایک سینئر صحافی وسیم احمد شاہ نے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کو وکیل اور جج کی حیثیت سے دیکھا ہے۔ ان کے بقول چیف جسٹس وقار ایک بے خوف جج ہیں اور انہوں نے ہمیشہ میرٹ پر فیصلے کیے ہیں۔

وسیم احمد نے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ سے متعلق کہا کہ وہ کبھی بھی کسی سیاسی دباؤ کا شکار نہیں ہوئے۔

دسمبر 1995 میں پشاور صدر کے گنجان آباد علاقے میں ایک دھماکہ ہوا تھا۔ اس دھماکے میں 27 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ زخمیوں میں جسٹس وقار احمد سیٹھ بھی شامل تھے۔

پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی حیثیت سے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کے مشہور فیصلوں میں ایکشن ان ایڈ سول پاور قانون کی توسیع کے خلاف حکم امتناع، جبری طور پر گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو نوٹس جاری کرنا، فوجی عدالتوں سے دی گئی سزاؤں کو معطل کرنا سرِ فہرست ہیں۔

جسٹس وقار احمد کے پشاور کی وکلا برادری کے ساتھ بھی اچھے روابط ہیں لیکن جج بننے کے بعد سے وہ نہ صرف دوستوں بلکہ قریبی رشتہ داروں کی شادی اور دیگر تقریبات میں شرکت کرنے سے بھی گریز کرتے ہیں۔

انہوں نے اپنے سماجی تعلقات اور روابط کو صرف جنازوں اور فاتحہ خوانی میں مختصر شرکت تک محدود کیا ہوا ہے۔

XS
SM
MD
LG