پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے ترجمان ندیم افضل چن کا کہنا ہے کہ ملک میں میڈیا کبھی بھی مکمل آزاد نہیں تھا۔ پہلے بھی میڈیا صرف سیاست دانوں کے معاملے میں ہی آزاد تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت ملکی اور بین الااقوامی ذرائع ابلاغ کے تحفظات دور کرنا چاہتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں وزیر اعظم کے ترجمان نے کہا کہ حکومت کا بین الاقوامی میڈیا سمیت کسی بھی نیوز چینل یا ادارے کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
کابینہ کے اجلاس کا ذکر کرتے ہوئے ندیم افضل چن نے بتایا کہ ذرائع ابلاغ کے اداروں کے تحفظات پر تفصیلی بحث ہوئی۔ وزیر اعظم نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ انہیں وائس آف امریکہ اور بی بی سی سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
وزیر اعظم کے ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ صحافی ہمارے دوست ہیں اور تحریکِ انصاف کے دھرنے میں میڈیا نے ہمیں بہت پروموٹ کیا۔
واضح رہے کہ پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتیں کہتی ہیں کہ حکومت اُن کی آواز کو بند کر رہی ہے اور نیوز چینلز پر اپوزیشن کی ریلیوں کا بلیک آؤٹ کیا جاتا ہے۔
میڈیا میں اپوزیشن کی سینسرشپ کے حوالے سے ندیم افضل چن نے کہا ہے کہ اخبارات میں حزب اختلاف کے حق میں کالم چھپ رہے ہیں جب کہ ٹاک شوز میں بھی اپوزیشن رہنما اپنے مؤقف بیان کرتے ہیں۔
مریم نواز کے انٹرویو کو دورانِ نشریات بند کرنے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں ترجمان وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ مریم نواز سزا یافتہ ہیں۔ اس لیے اُن پر پابندی ہے۔ اس حوالے سے بحث کا آغاز ہو چکا ہے کہ سزا یافتہ شخص کا انٹرویو نشر ہونا چاہیے یا نہیں۔
وزیرِ اعظم کے ترجمان نے واضح کیا کہ سیاست اور احتساب دو الگ چیزیں ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کے مقدمات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں جب کہ فیصلہ بھی عدالتوں نے ہی کرنا ہے۔
'پارلیمنٹ کی کارکردگی مثالی نہیں ہے‘
ترجمان وزیر اعظم نے مزید کہا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران حکومت کی پارلیمانی کارکردگی زیادہ اطمینان بخش نہیں اور پارلیمانی سال کے دوران قانون سازی کا عمل سست روی کا شکار رہا ہے۔
پارلیمانی کارکردگی پر انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمان کو چلانا حکومت اور اپوزیشن دونوں کا کام ہے۔ لیکن، یہ حقیقت ہے کہ "پارلیمنٹ کی کارکردگی مثالی نہیں ہے۔"
حزبِ اختلاف پر الزام لگاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے اس سلسلے میں کوشش کی۔ لیکن، اپوزیشن کا رویہ سنجیدہ نہیں ہے۔
ندیم افضل چن نے کہا ہے کہ وزیرِ اعظم نے اعتراض کے باوجود قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنایا ہے۔ لیکن، چار ماہ سے انہوں نے کمیٹی کا اجلاس ہی نہیں بلایا۔
اسد قیصر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پارلیمنٹ ایک آزاد ادارہ ہے۔ اسپیکر حکومتی جماعت سے ہیں۔ تاہم، پارلیمانی نظام میں اسپیکر زیادہ ’ڈکٹیشن‘ نہیں لیتے۔
حکومت اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہے؟
وزیرِ اعظم کے ترجمان نے کہا کہ حکومت حزب اختلاف کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنا چاہتی ہے، تاکہ جمہوری نظام کو بہتر طریقے سے چلایا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ جن سیاسی قائدین پر مقدمات ہیں اُنہیں چاہیے کہ وہ پارٹی سے الگ ہو جائیں۔
حزِب اختلاف کے احتجاج اور اسلام آباد کے لاک ڈاؤن کی کال کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ "کسی بھی غیر جمہوری اقدام کا نقصان سب کو ہو گا کیونکہ جمہوریت کا کیک، اپوزیشن اور حکومت دونوں کو مل کر کھانا ہے۔"
وزیرِ اعظم کے ترجمان نے کہا ہے کہ اصلاحات کا مطالبہ حزبِ اختلاف کا جائز حق ہے اور اگر وہ الیکشن کمشن، نیب اور عدلیہ سمیت کسی بھی ادارے میں ریفارمز کرنا چاہتی ہے تو اس سلسلے میں ایوان میں بل پیش کرے۔
سینیٹ انتخابات
چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بارے میں ندیم افضل چن نے کہا کہ جس جماعت کی سینیٹ میں اکثریت ہے، اسے چیئرمین منتخب کرنے کا اختیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹ کے چیئرمین کا انتخاب خفیہ رائے شماری سے ہوتا ہے۔ اب یہ اراکین پر منحصر ہے کہ وہ پارٹی کے فیصلے کے مطابق یا اس سے ہٹ کر ووٹ دے سکتے ہیں۔
ندیم افضل چن کے مطابق، سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی پاکستان پیپلز پارٹی سمیت تحریک انصاف کے اتحادی امیدوار تھے۔ اب پیپلز پارٹی کو چاہیے کہ وہ یہ بتائے کہ اُس وقت انہوں نے صادق سنجرانی کی حمایت کیوں کی تھی؟