پاکستان میں سینیٹ کے چیئرمین کے لیے حزب اختلاف کی جماعتوں کے نامزد امیدوار میر حاصل بزنجو کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ انتخابی عمل میں نادیدہ قوتیں اثر انداز ہونا بھی چاہیں تو وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔
سینیٹ میں اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا رکھی ہے۔ جبکہ حاصل بزنجو کو متفقہ امیدوار نامزد کرتے ہوئے نئے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے لیے اجلاس بلانے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر میر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ انہیں حکومت کے تاخیری حربوں پر تشویش ہے۔
حاصل بزنجو نے کہا کہ "چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں منڈی نہیں لگنی چاہیے اور اگر اس حوالے سے کچھ پک رہا ہے تو یہ ملک اور جمہوریت کے لئے اچھی بات نہیں ہے۔"
نیشنل پارٹی کے سربراہ نے کہا کہ ایوان بالا کی اکثریتی جماعتوں نے انہیں نامزد کیا ہے اور اب اگر وہ الیکشن ہار بھی جائیں تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ نتائج پر اثر انداز ہونے والوں کو بدنامی کا سامنا کرنا ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں غیر متوقع نتائج کا خطرہ نہیں ہے البتہ حکومت تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔
دوسری جانب سینیٹ میں پاکستان تحریک انصاف اور اتحادی جماعتوں نے ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی ہے۔
میر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ سینیٹ وفاق کا نمائندہ اور سنجیدہ لوگوں پر مشتمل ایک فورم ہے۔ "یہ پنجاب اسمبلی نہیں جہاں سینکڑوں اراکین ہوں اور آپ انہیں جہاز میں بٹھا کر اڑتے پھریں۔ مجھے کم سے کم اپوزیشن اتحاد کی جماعتوں پر مکمل یقین ہے۔"
خیال رہے کہ گزشتہ سال انتخابات کے بعد پنجاب میں حکومت سازی کے لیے تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے متعدد آزاد اراکین کو پاکستان تحریک انصاف میں شامل کروایا تھا۔ ان پر یہ بھی تنقید کی گئی تھی کہ انہوں نے آزاد امیدواروں کو خریدنے کے لیے بھاری رقم خرچ کی اور انہیں اپنے ذاتی جہاز پر بٹھا کر بنی گالا لاتے رہے۔
میر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ کے گزشتہ انتخاب میں اگر آصف زرداری ساتھ نہ چھوڑتے تو سینیٹ میں اکثریتی جماعتیں اپنا چیئرمین سینیٹ منتخب کروانے میں ناکام نہ ہوتیں۔
بلوچ قوم پرست رہنما حاصل بزنجو کا کہنا ہے کہ انہیں کسی ادارے سے مسئلہ نہیں ہے اور کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے وہ ہمیشہ بات چیت پر آمادہ ہیں۔
ان کے بقول "ہمارا المیہ ہے کہ ہم ملکی داخلی مسائل پر بات چیت سے مسلسل اجتناب کر رہے ہیں۔ اگر بات چیت ہوتی تو ہم کسی نتیجے پر پہنچتے اور ملک آج ان دیرینہ مسائل سے چھٹکارا پا چکا ہوتا۔"
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ اکثریت نہ ہونے کے باوجود وزیر اعظم کس بنیاد پر انہیں یقین دہانیاں کروا رہے ہیں۔
"ہمارے پاس ایوان میں دو تہائی اکثریت ہے جبکہ حکومت کے پاس ایک تہائی بھی نہیں، پھر آپ کیسے مقابلہ کریں گے۔"
صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کے حوالے سے حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ کا عہدہ ان جماعتوں کا حق ہے جن کی یہاں اکثریت ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کا امیدوار نامزد کیے جانے کے سوال پر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ رہبر کمیٹی نے یہ اختیار سینیٹ میں اکثریتی جماعت مسلم لیگ ن کو دیا تھا۔ نواز شریف نے میرے نام کی منظوری دی جس پر میں ان کا شکرگزار ہوں۔
حاصل بزنجو نے کہا کہ آصف زرداری ان سے ناراض نہیں مشترکہ امیدوار لانے کا اختیار مسلم لیگ ن کو دیا گیا تھا۔ البتہ وہ نامزدگی کی حمایت کرنے پر پارلیمینٹ کے آئندہ اجلاس میں ان سے ملاقات کر کے شکریہ ادا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ بطور چیئرمین سینیٹ اگر وہ آزادانہ کام نہ کرسکے تو یہ ایوان اور منصب کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ ملکی مفاد میں قانون سازی ان کی پہلی ترجیح ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ سینیٹ کے پچھلے ادوار میں قانون سازی بھی کی گئی، لیکن شور شرابا بھی ہوتا رہا۔ تاہم وہ کوشش کریں گے کہ سینیٹ کا وقار بحال کریں۔
چیئرمین سینٹ اور بلوچستان کی محرومیاں
سینیٹ میں ملک کے چاروں صوبوں کی برابر نمائندگی ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین میں سے کوئی ایک عہدہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کو دینے کی روایت رہی ہے۔
بلوچستان کے حقوق کے علمبردار سمجھے جانے والے حاصل بزنجو نے کہا کہ اسلام آباد میں تاثر ہے کہ اگر چیئرمین سینیٹ بلوچستان سے نہ ہو تو صوبے میں احساس محرومی پیدا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا احساس محرومی دور کرنے کے لئے ترقیاتی فنڈز میں خاطر خواہ اضافہ کرنا ہو گا۔ وہاں کے معدنی ذخائر کو بروئے کار لانا پڑے گا۔ ان کے بقول اس کے بغیر اگر انہیں ملک کا صدر بھی بنا دیا جائے تو بھی وہ صوبے کی محرومیاں دور نہیں کرسکیں گے۔
گزشتہ سال سینیٹ انتخابات کے موقع پر پاکستان تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی نے مشترکہ طور پر صادق سنجرانی کو چئیرمین سینیٹ منتخب کروایا تھا۔ جس پر اس وقت کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن نے ان دونوں جماعتوں پر الزام عائد کیا تھا کہ انہوں نے ایسا غیر جمہوری قوتوں کی ایماء پر کیا۔
تاہم اب مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی چیئرمین سینیٹ کو ہٹانے کے لیے سرگرم ہیں اور پاکستان تحریک انصاف اس کی مخالفت کر رہی ہے۔