امریکی جریدے فارن پالیسی کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کہ شدت پسند گروپ داعش جنوبی اور وسط ایشیائی ممالک میں ایک نیا خطرہ بن کر سامنے آ رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اب اس گروپ میں وسط ایشیائی ممالک اور بھارت سے تعلق رکھنے والے شدت پسند بھی شامل ہو رہے ہیں۔
جمعرات کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق کئی مبصرین دائیں بازو کے انتہا پسندوں پر اپنی توجہ مرکو ز کیے ہوئے ہیں، جو ان کے خیال میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہو سکتے ہیں۔
فارن پالیسی میگزین نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ رواں سال اگست میں افغانستان کی شہر جلال آباد میں ایک جیل پر شدت پسند تنطیم داعش خراسان کے حملے میں افغان، تاجک اور پاکستانی عسکریت پسند مبینہ طور پر ملوث تھے۔ اس کے علاوہ رپورٹ یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ داعش کے جنگجو افغان دارالحکومت کابل میں ایک سکھ گوردوارے پر حملے میں بھی ملوث رہے ہیں۔
اگرچہ بعض تجزیہ کار اس بات سے اتفاق کرتے کہ داعش نہ صرف افغانستان بلکہ جنوبی اور وسط ایشیائی مملک کے لیے بھی خطرات اور مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔ تاہم دوسری طرف بعض تجزیہ کاروں کی یہ رائے بھی ہے کہ اگر افغانستان میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ایک امن معاہدہ طے پا جاتا ہے تو اس صورت میں داعش کے لیے افغانستان یا کسی دوسرے ملک میں منظم ہونا ممکن نہیں رہے گا۔
افغان امور کے تجزیہ کار سمیع یوسف زئی کا کہنا ہے کہ ماضی میں پاک افغان سرحد سے متصل علاقے بیرونی عناصر کا گڑھ رہے ہیں چاہیے وہ شمالی افریقہ سے آنے والے عرب القاعدہ کے جنگجو ہوں، چاہیے ان کا تعلق مشرق وسطیٰ سے ہو، تاجکستان سے ہو، یا ازبکستان سے، ان کے بقول یہ عناصر ان علاقوں کو اپنی سرگرمیوں کے لیے ساز گار خیال کرتے رہے ہیں۔
سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ اگر افغانستان میں کابل اور طالبان کے درمیان کوئی سیاسی تصفیہ طے پا جاتا ہے تو پھر افغان حکومت مضبوط ہوئے گی اور پھر ایسے عناصر کے لیے اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر کوئی امن معاہدہ نہیں ہو پاتا اورحکومت بھی کمزور رہتی ہے تو پھر یہ خدشہ موجود ہے کہ یہ علاقہ دوبارہ خانہ جنگی کی لیپٹ میں آ سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں داعش کا علاقائی کنڑول ختم ہو گیا ہے، لیکن یہ امکان موجود ہے کہ وہ خود کو دوبارہ عدم استحکام کے شکار علاقوں میں منظم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں اور مقامی افراد کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ لیکن ان کےخیال میں اگرچہ داعشن نے افغانستان میں ہونے والے بعض حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے لیکن حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ ان حملوں میں کون ملوث تھا۔
یادر ہے کہ جنوبی ایشیا میں کشمیر کا معاملہ پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ کئی دہائیوں سے حل طلب ہے اور رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے یہ معاملہ خطے میں شدت پسندی کے فروغ کا سبب بن سکتا ہے۔
سلامتی سے متعلق امور کے تجزیہ کار اور بھارتی فوج کے سبابق جنرل دیپانکر بینر جی کا کہنا ہے کہ اگرچہ شدت پسند تنظیم نے اکا دکا واقعات بھارت کے زیر اتنطام علاقوں میں کرنے کا دعوی کیا ہے لیکن ابھی حتمی طور پر یہ ثابت نہیں ہوا کہ یہ حملے داعش نے ہی کیے تھے۔
لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہ خدشہ موجود ہے کہ شدت پسند تنطیم ایسی کارروائیاں کر سکتی ہے، کیونکہ ریاست کیرالا سے متعدد شدت پسند عراق اور افغانستان میں داعش کی حمایت میں گئے تھے اور ان میں سے متعدد افراد اب بھارت میں واپس آ رہے ہیں اور یہ خطرہ ہے کہ وہ خود کو منظم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں، لیکن ان کی جانب سے بڑی سطح پر کارروائیوں کا امکان محدود ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ بھارت کے اندرونی صورتحال، خاص طورپر اس کے زیر انتظام علاقوں کے حالات کی وجہ سے وہاں شدت پسندی کے فروغ کا خطرہ موجود ہے۔
جنرل دیپانکر بینرجی کا کہنا ہے کہ بھارت کی حکومت بھی بعض ایسی پالیسیاں جاری رکھے ہوئے ہے جس پر بھارت کی مسلم برداری کو تحفطات ہیں اور یہ خدشہ موجود ہے کہ بعض عناصر شدت پسندی کی طرف سے مائل ہو سکتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان کی صورت حال، کشمیر کے حالات اور سیٹیزن ایکٹ کی وجہ سے بھی مسائل پیدا ہو رہے ہیں جس سے شدت پسندوں کے لیے سازگار فضا پیدا ہو سکتی ہے۔
تاہم صحافی سمیع یوسف زئی کا کہنا ہے کہ اگرچہ بھارتی حکومت کی بعض پالیسیوں پر مسلمان اقلیت کو تحفظات ہیں لیکن وہ اسے اپنا اندرونی معاملہ سمجھتے ہیں جسے داعش اپنے حق میں استعمال نہیں کر سکتی۔
تجزیہ کار دیپانکر بینرجی کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے بھارت کی معیشت پر منفی اثر پڑے گا اور دوسری طرف کشمیر کی صورتحال اور چین اور بھارت کے درمیان لداخ کے سرحدی تنازع کے باعث بھی پورے جنوبی ایشیا کی صورتحال نازک ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر افغانستان میں امن کا راستہ ہموار نہ ہوا تو مستقبل قریب میں خطے میں شدت پسندی کے رجحان میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
جنرل بینر جی کے مطابق اگرچہ شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ اجلاس میں دہشت گردی کا معاملہ بھی زیر بحث آیا تھا لیکن اس معاملے پر ایک متفقہ لائحہ عمل سامنے آنا باقی ہے۔