رسائی کے لنکس

کیا مردوں کو 'نہ' کا مطلب نہیں معلوم؟


زینب قریشی نے مزید بتایا کہ وہ کم عمری میں بھی اتنی سمجھدار تھیں کہ انہیں یہ رویہ ان کے ساتھ کی جانے والے زبردستی کے مترادف لگا۔۔۔

ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ لوگوں کو لگتا ہے’نہ’ کا مطلب ہے کہ ’’اچھا اس کے جواب میں، میں زبردستی کروں گا تو لڑکی مان جائے گی۔ ہمارے ہاں، مردوں کو رضامندی کا مطلب معلوم نہیں ہے‘‘۔

یہ الفاظ 20 سالہ زینب قریشی کے ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والی زینب قریشی کا اس وقت پاکستانی سوشل میڈیا حلقوں میں خاصا چرچا ہے۔ انہوں نے ملک کی موسیقی کی بڑی ویب سائٹ ’پٹاری‘ کے بانی رُکن، خالد باجوہ پر انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ زینب قریشی کے یہ الزامات، خالد باجوہ پر پہلے ہی ایک اور خاتون، مہرآور کی جانب سے لگائے گئے اسی قسم کے الزامات کے بعد سامنے آئے ہیں۔

زینب قریشی لاہور سکول آف اکنامکس میں گریجویشن کی طالبہ ہیں۔ ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ قانونی طور پر نابالغ تھیں۔ سترہ سال کی تھیں جب خالد باجوہ سے ان کی بات چیت شروع ہوئی۔

بقول اُن کے، ’’خالد باجوہ مجھے ایسے گانے سننے کو بھیجا کرتے تھے جو اس وقت تک نئے تھے اور ریلیز نہیں ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی وہ مجھے گانوں کی پرائیوٹ محفلوں میں مخصوص دعوت دیتے تھے اور کانسرٹس کے لیے مفت ٹکٹ پیش کرتے تھے۔ جواب میں مجھ سے ملاقات کے خواہشمند ہوتے تھے۔ میرے منع کرنے پر وہ مجھے ایسے بہانے بھی تلاش کرکے دیتے تھے جو میں اپنے والدین سے کر سکوں، تاکہ مجھے باہر جانے کی اجازت ملے۔‘‘

زینب قریشی نے مزید بتایا کہ وہ کم عمری میں بھی اتنی سمجھدار تھیں کہ انہیں یہ رویہ ان کے ساتھ کی جانے والے زبردستی کے مترادف لگا، جس کے بعد انہوں نے خالد باجوہ کو اپنے سوشل میڈیا اور فون پر بلاک کر دیا۔

ایک اور کم عمر خاتون، مہر آور کی جانب سے خالد باجوہ کے بارے میں لگ بھگ اسی قسم کے رویے کی شکایت نے زینب قریشی کو تین سال بعد اپنی حقیقت سے پردہ اٹھانے کی ہمت دی۔

اُن کے الفاظ میں، ’’ہم جس سوسائٹی میں رہتے ہیں جتنی پیٹریارکی (پدرانہ نظام) ہے سوسائٹی میں مجھے ڈر لگتا تھا کہ جب یہ بات پھیلے گی اور مجھے پتا تھا کہ یہ بات بہت پھیلے گی اور بات میرے گھر اور رشتہ داروں تک جائے گی اور اس خوف سے اس ڈر سے کہ لوگ کیا کہیں گے میں خالد باجوہ کو اس سے پہلے ’ایکسپوز‘ نہیں کر پائی۔ اس کے ساتھ ہی میں بہت دیر تک خود کو مورد الزام ٹھہراتی رہی کہ شاید غلطی میری ہے۔‘‘

زینب قریشی کے مطابق، ’’خالد باجوہ کے ساتھ گزرے اس وقت کو تین سال بیت چکے ہیں‘‘، اور اب آکر وہ اتنی بہادر ہوگئی ہیں کہ وہ اس قسم کے رویوں کو سامنے لا سکتی ہیں اور ان کو خوشی ہے کہ ان کے دوستوں اور ان کے والدین نے ان کا بھرپور ساتھ دیا ہے‘‘۔

بقول اُن کے، ’’میں توقع نہیں کر رہی تھی کہ مجھے اتنی حمایت ملے گی، مگر میں یہی اپیل کروں گی ان تمام لڑکیوں اور خواتین سے جو جنسی ہراساں ہونے کا مقابلہ کرتی ہیں کہ، ’پلیز‘ سامنے آئیں اور ایسے لوگوں کے بارے میں کھل کر اظہار کریں، ورنہ یہ لوگ تبدیل نہیں ہوں گے۔ بہت ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے کے مردوں کو رضامندی کا مطلب سمجھ میں آئے ورنہ یہ معاشرہ کبھی نہیں سدھرے گا۔‘‘

فروری 2015ء میں پاکستان میں لانچ ہونے والی ویب سائٹ، ’پٹاری‘ تین نوجوانوں، خالد باجوہ، ہمایوں ہارون اور اقبال طلعت بھٹی نے مل کر بنائی تھی۔ مگر اب اس سکینڈل کے نتیجے میں خالد باجوہ کو ’پٹاری‘ کے چیف ایگزیکیٹو کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ ’پٹاری‘ کمپنی نے اس بات کی تصدیق ٹوئٹر پر یہ کہہ کر کی ہے کہ ’’حالیہ واقعات کی روشنی میں کمپنی کے سی ای او خالد باجوہ اپنا عہدہ فوری طور پر چھوڑ رہے ہیں اس سلسلے میں تحقیقات کی جا رہی ہیں یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے۔ مگر پٹاری، جنسی طور پر ہراساں ہونے والی لڑکیوں کے ساتھ ہے اور یقین دلاتی ہے کہ جو کچھ پٹاری کے اختیار میں ہے وہ کیا جائے گا۔‘‘

دوسری طرف خالد باجوہ نے اپنا ٹوئٹر اکاؤنٹ بند کر دیا ہے اور ’وائس آف امریکہ‘ کے کئی بار رابطے پر بھی وہ بات کرنے کو تیار نہیں۔ زینب قریشی کہتی ہیں کہ ’’خالد باجوہ کو عہدے سے ہٹایا جانا مسئلے کا مکمل حل نہیں ہے۔ مگر پھر بھی حوصلہ افزا ہے‘‘۔

بقول اُن کے، ’’اگرچہ خالد باجوہ نے سب سے زیادہ فائدہ اپنے اس عہدے اور اس سے ملنے والی طاقت کا اٹھایا اور میرے ساتھ ساتھ کئی اور لڑکیوں کو مفت کانسرٹس وغیرہ آفر کرکے منانے کی کوشش کی۔ مگر میں ’پٹاری‘ کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انہوں نے یہ قدم اٹھایا کیونکہ خالد باجوہ جیسے کئی لوگ منظر عام پر محض اس لیے نہیں آ پاتے کیونکہ ان کی کمپنیاں ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتیں۔‘‘

یاد رہے کہ پاکستانی دفاتر میں خواتین کو جنسی ہراساں کیے جانے سے محفوظ رکھنے کے لیے 2010 میں قانون منظور ہوا تھا۔ ان اداروں میں سرکاری دفاتر، یونیورسٹیاں، کثیرالقومی ادارے اور ہسپتال شامل ہیں۔

تاہم، جس رویے کا سامنا، زینب قریشی اور ان جیسی کئی کم عمر لڑکیوں کو کرنا پڑتا ہے اس کے بارے میں زینب کا کہنا ہے کہ بہت ضروری ہے کہ مردوں، خواتین اور بچوں میں زمینی سطح پر اس بات کا شعور اور آگہی پیدا کی جائے کہ جنسی ہراسیت دراصل ہوتی کیا ہے؟

XS
SM
MD
LG