پاکستان میں بچوں کے جنسی استحصال کے خلاف کام کرنے والی ایک موقر غیر سرکاری تنظیم 'ساحل' نے بدھ کو اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ملک بھر میں روزانہ اوسطاً نو سے زائد بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔
تنظیم نے ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہونے والے ایسے واقعات کے اعدادوشمار کی بنیاد پر مرتب کردہ رپورٹ میں بتایا کہ گزشتہ سال 3445 بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جب کہ 2016ء میں یہ تعداد 4139 تھی۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کرنے کے 109 واقعات رپورٹ ہوئے جب کہ صرف جنسی استحصال کے 1746 کیسز سامنے آئے۔ اسی طرح بچوں کے اغوا کے 1229 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے 81 فیصد واقعات میں لڑکیوں کو اغوا کیا گیا۔
ساحل کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر منیزہ بانو نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ دنیا بھر میں بچوں کے ساتھ ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں لیکن مناسب و موثر اقدام ان کی بڑھتی ہوئی تعداد پر قابو پانے میں معاون رہے اور ایسے ہی ضروری اقدام پاکستان میں کرنے کی ضرورت ہے۔
"قوانین تو ہیں لیکن جب تک ان کے نفاذ کو آسان نہ بنایا جائے تا کہ متاثرہ فریق کو کم سے کم تکلیف ہو تاکہ معاملہ جلد نمٹایا جا سکے، معاملے پر مصالحت نہ ہو جائے، گواہ نہ غائب ہو جائیں، تو یہ ضروری ہے کہ بچوں سے متعلق دوستانہ نظام انصاف اور جلد انصاف ہو۔"
ساحل نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ گزشتہ سال بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات پنجاب سے رپورٹ ہوئے اور ان کی تعداد 2168 تھی۔ سندھ میں 933، بلوچستان میں 139، اسلام آباد میں 112 اور خیبر پختونخواہ میں 78 کیسز رپورٹ ہوئے۔
کم سن بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، اغوا اور قتل کے واقعات آئے روز سامنے آتے رہے ہیں لیکن جنوری میں قصور میں کم سن بچی زینب کے جنسی زیادتی کے واقعے نے پورے ملک میں غم و غصے کو برانگیخت کیا اور ایسے واقعات کے تدارک کے لیے ٹھوس اقدام کرنے کے مطالبات میں بھی شدت آئی۔
بچوں کے حقوق کے لیے ایک سرگرم کارکن عمران ٹکر کہتے ہیں کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین موجود ہونے کے باوجود ان کے خیال میں اس بارے میں مربوط کوششوں کا فقدان ایسے واقعات کو روکنے میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ ہے۔
"ہم مربوط کوششیں نہیں کر رہے، یہ کسی ایک بندے یا ادارے کا کام نہیں ہے اس میں بہت سے اداروں کا عمل دخل ہے اور وہ سارے ادارے جب تک ایک مربوط نظام کے تحت کوشش نہیں کرتے تو میرا نہیں خیال کہ اس چیز پر قابو پایا جا سکے۔"
حکومت کا کہنا ہے کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے پرعزم ہے اور قانون سازی کے علاوہ اس ضمن میں وہ سنجیدہ اقدام بھی کر رہی ہے لیکن اس میں معاشرے کے ہر طبقے کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
دریں اثناء سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے جڑانوالہ میں ایک کم سن بچی کے مبینہ جنسی زیادتی کے بعد قتل کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس سے دو روز میں رپورٹ طلب کی ہے۔
سات سالہ بچی یکم اپریل کو گھر کے قریب کھیلتے ہوئے لاپتا ہوئی اور بعد ازاں اس کی لاش کھیتوں سے برآمد ہوئی تھی۔ اس واقعے پر شہر میں حالات کشیدہ ہو گئے تھے اور مشتعل مظاہرین کی طرف سے توڑ پھوڑ بھی کی گئی تھی۔