رسائی کے لنکس

امریکی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی، وجوہات کیا ہیں؟


شرح سود میں حالیہ کمی اور کرونا وائرس سے پیدا شدہ بے یقینی کی صورتِ حال کو روپے کی قدر میں کمی کی بنیادی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ (فائل فوٹو)
شرح سود میں حالیہ کمی اور کرونا وائرس سے پیدا شدہ بے یقینی کی صورتِ حال کو روپے کی قدر میں کمی کی بنیادی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ (فائل فوٹو)

پاکستان میں امریکی ڈالر کی قیمت ملک کی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔

دو روز کے دوران روپے کی قدر میں تاریخی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ صرف جمعے کو ڈالر ایک روپیہ 87 پیسے مہنگا ہو کر 168 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا۔ تاہم اسٹیٹ بینک کی مداخلت پر ڈالر کی قیمت میں کمی ہوئی جس کے بعد یہ 165 روپے کی سطح پر آگیا ہے۔

گزشتہ چار روز میں ڈالر آٹھ روپے 20 پیسے مہنگا ہوا جس کے باعث پاکستان کے بیرونی قرضوں کے بوجھ میں 800 ارب روپے تک کا اضافہ ہو گیا ہے۔

رواں ماہ امریکی ڈالر کی قدر میں تقریباً 13 پاکستانی روپے سے زائد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ اس طرح مارچ میں اب تک پاکستانی روپیہ تقریباً نو فی صد کے قریب اپنی وقعت کھو چکا ہے۔

روپے کی قدر میں کمی کی بنیادی وجہ

حکومت پاکستان کی جانب سے شرح سود میں حالیہ کمی اور کرونا وائرس سے پیدا شدہ بے یقینی کی صورتِ حال کو روپے کی قدر میں کمی کی بنیادی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔

موجودہ صورتِ حال میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے حکومت کے ٹریژری بلز میں کی گئی بھاری سرمایہ کاری کا انخلا بھی اس کی ایک وجہ ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے پیدا شدہ معاشی صورتِ حال کے باعث غیر ملکی سرمایہ کار بھاری تعداد میں پیسہ اپنے ملکوں کو واپس لے کر جا رہے ہیں۔

حکومت پاکستان کے ٹریژری بلز میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری برطانیہ کے شہریوں کی تھی جو 50 فی صد سے زائد بتائی جاتی ہے۔

اسی طرح امریکی شہریوں کی سرمایہ کاری بھی 40 فی صد کے لگ بھگ بتائی جا رہی ہے۔ ان سرمایہ کاروں کی جانب سے فوری فروخت سے ڈالر کی طلب میں اضافہ ہوا ہے اور روپے کی قدر میں کمی دیکھی جا رہی ہے۔

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مارچ کے پہلے تین ہفتوں میں ٹی بلز کی مد میں ایک ارب 61 کروڑ ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کا انخلاء ہوا ہے۔ اب حکومت کے پاس اس مد میں 3.4 ارب ڈالرز سے کم ہو کر 1.46 ارب ڈالر رہ گئی ہے جب کہ رواں ہفتے بھی ہر روز تقریباً سو سے ڈیڑھ سو ملین ڈالر کا آؤٹ فلو سامنے آ رہا ہے۔

'ملک میں فاریکس ایکسچینج کا والیم اچھا ہے'

فارن ایکسچینج ایسوسی ایشن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے بلند شرح سود ہونے کی وجہ سے اس ضمن میں بھاری سرمایہ کاری کی گئی تھی لیکن گزشتہ نو روز میں شرح سود میں 225 بیسز پوائنٹس کی بڑی کمی کی گئی ہے جس کی وجہ سے بعض سرمایہ کاروں نے اپنا پیسہ واپس نکالنے کو ترجیح دی۔ لیکن ان کے مطابق اب بھی پاکستان میں شرح سود دییگر ممالک کے مقابلے میں کافی بلند ہے۔

چئیرمین فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان ملک بوستان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کرونا وائرس سے ہونے والی بے یقینی میں خلاف توقع بانڈز کی فروخت اور ڈالر میں سرمایہ باہر جا رہا ہے اور اس صورتِ حال میں بہتری آنے پر ہی یہ آؤٹ فلو رک سکتا ہے جس سے روپے کی قیمت میں استحکام آسکتا ہے۔

ملک بوستان کا کہنا ہے کہ ملک میں فاریکس ایکسچینج کا والیم تو اچھا ہے جس میں روزانہ 500 ملین ڈالر روزانہ پیسہ آرہا ہے جس میں تجارت سے آنے والا پیسہ، سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات زر اور براہ راست سرمایہ کاری شامل ہے۔

ان کے بقول، یہی وجہ ہے کہ ٹی بلز کی مد میں نکلنے والے پیسے پر حکومت کو فی الحال اپنے ذخائر خرچ نہیں کرنے پڑ رہے۔

واضح رہے کہ ٹی بلوں میں سرمایہ کاروں کے سرمائے کا تحفظ حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔

حکومت کی کوشش تھی کہ ایک سال کے دوران ٹی بلز کی فروخت سے چھ ارب ڈالر تک جمع کیے جائیں اور اس میں حکومت کو گزشتہ چھ ماہ میں تین ارب ڈالر سے زائد جمع کرنے کی کامیابی بھی ملی ہے۔ لیکن کرونا وائرس کے باعث صورتِ حال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔

ماہرین کے خیال میں حکومت کی اب بھی کوشش ہے کہ اس مشکل صورتِ حال میں بھی دو ارب ڈالر سے زائد کے یورو بانڈز بھی جاری کرے۔

تاہم موجودہ صورتِ حال میں جب مرکزی بینک کی جانب سے فارن ایکسچینج ریگولیشن میں نرمی کی گئی ہے، اور حکومت نے ادویات اور طبی آلات کی فراہمی کو درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے، ایسے میں ملک میں امریکی ڈالر کی طلب میں مزید اضافہ ہو گا۔

ملک بوستان کے خیال میں اگر حکومتِ پاکستان کرونا وائرس سے پیدا شدہ صورتِ حال میں عالمی مالیاتی اداروں کو اس بات پر قائل کرلیتی ہے کہ وہ واجب الادا قرض کی رقوم کی ادائیگی مؤخر کریں، اس دوران برآمدات بڑھانے کے لیے تاجروں کو سبسڈی فراہم کی جائے تو برآمدات کی شکل میں ہمیں زرِمبادلہ مل سکتا ہے جو آنے والے دنوں میں ڈالر کے ذخائر میں استحکام اور پاکستانی روپے کی قدر میں ٹھہراؤ کا باعث بنے گا۔

ادھر ماہرین توقع کر رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں صورتِ حال بہتر ہونے پر پاکستان کی ٹیکسٹائل اور گارمنٹس کے شعبے میں برآمدات میں مزید اضافہ ہوگا۔

اس کے ساتھ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں بڑی کمی بھی برآمدکنندگان کے لیے فائندہ مند ثابت ہوگی جب کہ حکومت کی جانب سے ویلیو ایڈڈ ٹیکس، کیپیٹل ویلیو ٹیکس اور دیگر ٹیکسز کم کرنے کا عمل حوصلہ افزاء ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG