مسلمان ملکوں کی خواتین پولیس افسران کی چار روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا مقصد محکمہ پولیس میں خواتین کے عملی کردار کو بڑھانے اور پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران انھیں درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیےتجربات اور تجاویز کا تبادلہ تھا۔
اپنی نوعیت کا یہ دوسرا اجلاس تھا جس میں بارہ سے زائد اسلامی ممالک کی خواتین پولیس افسران، اراکین پارلیمان اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے بھی شرکت کی ۔
کانفرنس میں شریک پاکستانی خواتین پولیس افسران نے اپنے مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پولیس محکمے میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے جس کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین پولیس اہلکاروں کو اہم ذمہ داریاں نہیںسونپی جاتیں جبکہ ان کے لیے ترقی کے مواقع بھی محدود ہیں۔
اس بین الاقوامی کانفرنس میں پاکستانی پارلیمان میں خواتین اراکین پرمشتمل ویمن کوکس کی سیکرٹری جنرل نفیسہ شاہ نے بھی شرکت کی۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتےہوے انھوں نے اعتراف کیا کہ پولیس کے محکمے میں خواتین کی نمائندگی محض ایک فیصد ہے اور اس قدر کم نمائندگی کے باعث انہیں پیشہ وارانہ امور میں امتیازی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
’’خواتین پریشان ہیں کہ ان کی ترقیاں نہیں ہوتی انہیں اہم ذمہ داریاں نہیں سونپی جاتی ہیں یہ سب اس لیے ہوتا کہ ان کی نمائندگی بہت کم ہے ان کی نمائندگی بڑھی گی تو وہ اپنے حقوق کے لیے بہتر طریقے سے آواز اٹھا سکیں گی۔‘‘
انھوں نے کہا کہ خواتین کا پولیس کے محکمے میں دس فیصد کوٹہ مقرر کیا گیا ہے لیکن دیگر شعبوں کے مقابلے میں یہ ایک مشکل شعبہ ہے اس لیے عمومی طور پر پاکستانی خواتین پولیس کے محکمے میں ملازمت سے گریز کرتی ہیں۔
کانفرنس میں شریک ایران سے تعلق رکھنے والی خاتون پولیس افسر فریبا شائیستگان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ ایرانی پولیس میں خواتین کا تناسب 4 فیصد ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایران میں ہر سال خواتین ایک سسٹم کے تحت پولیس میں بھرتی ہوتی ہیں اور ان کی تعیناتی پولیس میں زیادہ تر خواتین اور بچوں سے متعلق شعبوں میں ہوتی ہے۔
’’ایران میں ہمیں پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانے میں زیادہ مشکلات نہیں ہوتی ہیں۔ ہمیں چیلنجز کو پورا کرنے کے لیے باقاعدہ تربیت فراہم کی جاتی تاکہ ہم اپنا کام خوش اسلوبی سے انجام دے سکیں‘‘۔
پاکستان کی پنجاب پولیس کی ایک افسر شائستہ رحمان نے کہا کہ ملک کی آبادی میں خواتین کا تناسب 50 فیصد ہے۔ پولیس اسٹیشن میں خواتین پولیس افیسر کی موجودگی سے خواتین اپنے اپ کو محفوظ تصور کرتی ہیں۔
’’جب کوئی جرم ہوتا ہے تو خواتین اس میں کسی نہ کسی طرح شامل ہوتی ہیں یا تو مجرم ہوتی ہیں یا پھر مجرم کی رشتہ دار یا پھر وہ جرم کا شکار ہوتی ہیں تو خواتین کو بہتر طریقے سے ڈیل کرنے کے لیے بھی پولیس میں خواتین کا ہونا بہت مفید ہوتا ہے۔‘‘
کانفرنس میں نائجیریا سے بھی خواتین پولیس اہلکاروں نے شرکت کی۔ نائجیریا پولیس کی اہلکار حاجرہ احمد نے بتایا کہ ان کے ملک میں خواتین اہلکاروں کا تناسب تقریباً 13 فیصد ہے اور خواتین پولیس اہلکاروں کے اوقات کار بھی کم ہیں۔
کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں پولیس کے شعبے میں خواتین کی تعداد بڑھانے کا مطالبہ اوراسلامی دنیا کی خواتین پولیس افسران پر مشتمل اسلامک ویمن پولیس نیٹ ورک کے قیام کی منظوری بھی دی گئی۔ اس نیٹ ورک کا مقصد پولیس کے محکمہ میں ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خواتین کے کردار کو بڑھانا ہے۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کانفرنس کے اختتامی سیشن سے خطاب میں وزرات داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ پولیس میں صنفی امتیاز ختم کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ خواتین پولیس کے فعال کردار اوراس محکمہ میں ان کی زیادہ سے زیادہ نمائندگی ملک میں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح کم کرنے میں مدد دے گی۔