حقوق انسانی کے عالمی دن کے موقع پر ہفتہ کو پاکستان میں انسانی حقوق کی سرگرم تنظیموں کے زیر اہتمام ملک کے مخلتف شہروں میں ہونے والی تقاریب میں حالیہ برسوں میں اقلیتوں کے خلاف سامنے آنے والے تشدد کے واقعات، نسلی اور سیاسی بنیادوں پر ہدف بنا کر کی جانے والی ہلاکتوں بھی تشویش کا اظہار کیا گیا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی کے لیے بھر پور اقدامات کئے جائیں
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے اس برس بلوچستان کی صورتحال پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے مختلف شہروں میں بلوچستان کے عوام سے یکجہتی کے لیے شمعیں روشن کیں۔
وفاقی حکومت کا کہنا ہے بلوچستان میں قیام امن کے لیے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر بلوچ عوام کے احساس محرومی کو دور کرنے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں جن میں بلوچستان میں قیام امن کی کوششیں اور مقامی نوجوانوں کو روزگار کے وسائل بھی فراہمی نمایاں ہے۔
صدر آصف علی زرداری نے حقوق انسانی کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں حکومت کے اس عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ عسکریت پسندی کا مقابلہ کیا جائے گا اور غربت میں کمی لائے جائے گی تاکہ امن اور آزادی کی فضا قائم ہو اور انسانی حقوق محفوظ ہو سکیں۔
دریں اثناء پاکستان کی پارلیمان میں موجود خواتین اراکین کا کہنا ہے کہ حکومت نے عورتوں کو تحفظ دینے کے لیے قانون سازی کی ہے لیکن عملی طور پر انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی رکن پارلیمنٹ یاسمین رحمن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ نہ صرف شہروں بلکہ دیہی علاقوں کی خواتین کو معاشی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ وہ فیصلہ سازی کے عمل میں شامل ہو سکیں۔
’’خواتین جب تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں گی تو انہیں ایکسپوژر ملے گا تو انہیں اہم عہدوں پر تعینات کیا جائے گا اور معاشی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کریں گی۔ اس حوالے سے آگاہی کی بہت ضرورت ہے۔‘‘
یاسمین رحمان نے کہا ہے کہ اہم عہدوں پر خواتین کی تعیناتی اور فیصلہ سازی میں شمولیت سے ان میں اعتماد بڑھتا ہے اور حکومت کی جانب سے اس پہلو پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔
خواتین کو معاشرے میں مساوی حقوق دلوانے کے لیے حکومت کی جانب سے کئی اقدامات کئے ہیں جن میں خواتین کے تحفظ کے لیے قانون سازی اور انکی حالت زار بہتر بنانے کے لیے کمیشن کا قیام شامل ہے۔
گزشتہ ماہ پاکستان کی پارلیمان نے عورت دشمن روایات کے خلاف قانون اتفاق رائے سے منظور کیا تھا جس کے تحت خواتین کو وراثت سے محروم رکھنے اور جبری شادی کو جرم قرار دے کر سزا اور جرمانے کا تعین کیا گیا تھا۔ پارلیمان میں دفتروں اور عوامی مقامات پر خواتین کو حراساں کئے جانے کے خلاف قانون سازی کا سہرا بھی خواتین اراکین پارلیمان کے سر جاتا ہے۔ جبکہ خواتین پر گھریلو تشدد کے سدباب کے لیے بھی قانون سازی زیر غور ہے۔