امریکی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں موجود دہشت گردوں کے خلاف فضائی آپریشن تیز کردیا گیا ہے تاکہ ان عناصر کی پڑوسی ملک افغانستان میں مغربی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت میں کمی لائی جاسکے۔
امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ اہلکاروں کے مطابق امریکی سی آئی اے کی جانب سے پاکستانی قبائلی علاقوں میں ستمبر کے مہینے میں 20 سے زائد ڈرون حملے کیے گئے جو کسی بھی ایک ماہ میں کیے جانے والے حملوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ حکام کے مطابق حملوں میں اضافہ کا مقصد پاکستانی قبائلی علاقوں میں مقیم دہشت گردوں کے حملوں سے افغانستان میں موجود مغربی اتحادی افواج کو محفوظ بنانا اور ان عناصر کی جانب سے مغربی ممالک کے خلاف کسی بھی قسم کی دہشت گردانہ کاروائی کا امکان ختم کرنا ہے۔
امریکی حکام بغیر پائلٹ کے اڑنے والے ڈرون طیاروں کو اپنا "قابلِ قدر ہتھیار" قرار دیتے ہیں کیونکہ ان طیاروں سے کیے جانے والے حملوں کی بدولت القاعدہ اور طالبان کے کئی مرکزی رہنما ہلاک کیے جاچکے ہیں۔ تاہم پاکستانی ذمہ داران اپنی سرزمین پر کیے جانے والے ڈرون حملوں پر کئی بار امریکی حکومت سے احتجاج کرتے ہوئے انہیں روکنے کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ پاکستان کا موقف ہے کہ اس کی سرزمین پر اس طرح کے حملے اس کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
موقر امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ سی آئی اے کی جانب سے پاکستان میں ڈرون حملوں کی تعداد میں اضافہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب نیٹو فوجیوں کو افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ میں طالبان کے ہاتھوں شدید جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔