رسائی کے لنکس

شمالی وزیرستان میں ڈرون حملوں میں تیزی


شمالی وزیرستان میں ڈرون حملوں میں تیزی
شمالی وزیرستان میں ڈرون حملوں میں تیزی

امریکی حکام کا ماننا ہے کہ افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک اور القاعدہ کے جنگجووٴں نے مقامی طالبان کمانڈروں کے ساتھ مل کر شمالی وزیرستان میں مضبوط ٹھکانے اور تربیتی مراکز بنا رکھے ہیں جنھیں افغانستان میں اتحادی فوجوں پر حملوں کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بلاوی کا تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کے ساتھ ویڈیو فلم میں سامنے آنا اور تحریک کے سابق کمانڈر بیت اللہ محسود کی موت کا بدلہ لینے کا پیغام دینا پاکستان کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنے گا اورجنوبی وزیرستان میں طالبان کے خلاف فوجی کارروائیوں کے بعد اب شمالی وزیرستان میں ایسے آپریشن جلد شروع کرنے کے امریکی مطالبات میں تیزی آئے گی۔

30 دسمبر کو افغانستان کے مشرقی صوبے خوست میں امریکی سی آئی اے کے ایک اہم مرکز پر خودکش حملے میں ادارے کے سات اہم افسران کی ہلاکت کے بعد شمالی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملوں میں غیر معمولی تیز ی آئی ہے ۔

ایک روز قبل مقامی اور بین الاقوامی ٹی وی چینلز نے اردن سے تعلق رکھنے والے خودکش بمبار حُمام خلیل ابو ملال البلاوی کی ویڈیو فلم جاری کی ہے جس میں وہ پاکستانی طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود کے ساتھ بیٹھ کر بظاہر حملے سے پہلے اپنا آخری پیغام پڑھ کر سنا رہا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ بلاوی کی ویڈیو فلم کے منظر عام پر آنے کے بعد پاکستانی طالبان، حقانی نیٹ ورک اور القاعدہ کے درمیان قریبی تعلق اور وزیرستان کے علاقوں کو سرحد پار افغانستان میں امریکی فوجوں کے خلاف کارروایئوں کے لیے استعمال کرنے کے امریکی خدشات کو تقویت ملی ہے اور آنے والے دنوں میں ڈرون حملوں میں اضافے کا امکان ہے۔

پچھلے دس روز میں بغیر پائلٹ کے امریکی جاسوس طیاروں سے پاکستان کے اس قبائلی علاقے میں عسکریت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں پر چھ میزائل حملوں میں مجموعی طور پر 40 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

زیادہ تر حملے میر علی اور تحصیل دتہ خیل کے علاقوں پر کیے گئے جس کی سرحدیں افغان صوبے خوست سے ملی ہوئی ہیں جہاں سی آئی اے کے مرکز پر خودکش حملہ کیا گیا تھا۔ دتہ خیل پاکستانی طالبان کمانڈر حاجی گل بہادر کا مضبوط گڑھ مانا جاتاہے اور اس علاقے میں تازہ ترین حملہ ہفتے کی شب اسماعیل خیل گاؤں پر کیا گیا جس میں پانچ مشتبہ عسکریت پسند ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ چھ جنوری کو دتہ خیل میں ایک ہی مقام پر اوپر تلے دو میزائل حملے کیے گئے تھے جن میں مجموعی طور پر پندرہ افراد مارے گئے تھے۔

تاہم قبائلی ذرائع کے مطابق تین جنوری کو میر علی کے قریب موسکی گاؤں پر میزائل حملے میں مرنے والے پانچ مشتبہ عسکریت پسندوں میں تین کا تعلق عرب ممالک سے تھا۔ ان میں شام سے تعلق رکھنے والا شیخ منصور بھی شامل تھا جو مبینہ طور پر افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ تنظیم کے مالی امور کا سربراہ تھا۔ اس کے علاوہ آٹھ جنوری کو مرکزی شہر میران شاہ کے قریب پالالئی گاؤں میں ایک مشتبہ ٹھکانے پر داغے گئے میزائل میں بھی ہلاک ہونے والے پانچ افراد میں دو غیر ملکی بتائے گئے تھے۔

امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ بلاوی بظاہر اردن کی خفیہ ایجنسی کا اہلکار تھا لیکن دراصل وہ القاعدہ کے لیے کام کررہا تھا۔ ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق اس ڈبل ایجنٹ کو خوست میں سی آئی اے کے مرکز پر مدعو کیا گیا تھا کیونکہ اس نے القاعدہ کے نائب لیڈر ایمن الظاواہری کے ٹھکانے کے بارے میں معلومات دینے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن اس کی بجائے بلاوی نے اجلاس کے دوران جسم سے بندھے بارود میں دھماکہ کر دیا جس سے وہاں پر موجود مرکز کی امریکی خاتون سربراہ سمیت سی آئی کے سات امریکی اہلکارہلاک اور چھ زخمی ہوگئے۔ اجلاس میں حصہ لینے والا اردن کی انٹیلی جنس ایجنسی کا ایک افسر بھی اس حملے میں ہلاک ہوگیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق خوست میں سی آئی اے کے اس مرکز پر شدت پسندوں کے خلاف اہم معلومات اکٹھی اور ان کی مدد سے پاکستانی قبائلی علاقوں میں ڈرون طیاروں سے کارروائیاں کی جاتی رہی ہیں ۔ سابق امریکی انٹیلی جینس عہدے داروں کا ماننا ہے کہ سی آئی اے کے جو افسران خودکش حملے میں ہلاک ہوئے وہ انتہائی تجربہ کار، ماہر اور علاقے کے بارے میں قیمتی معلومات کا ذخیرہ سمجھے جاتے تھے۔

امریکی حکام کا ماننا ہے کہ افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک اور القاعدہ کے جنگجووٴں نے مقامی طالبان کمانڈروں کے ساتھ مل کر شمالی وزیرستان میں مضبوط ٹھکانے اور تربیتی مراکز بنا رکھے ہیں جنھیں افغانستان میں اتحادی فوجوں پر حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ بلاوی کا تحریک طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کے ساتھ ویڈیو فلم میں سامنے آنا اور تحریک کے سابق کمانڈر بیت اللہ محسود کی موت کا بدلہ لینے کا پیغام دینا پاکستان کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنے گا اورجنوبی وزیرستان میں طالبان کے خلاف فوجی کارروائیوں کے بعد اب شمالی وزیرستان میں ایسے آپریشن جلد شروع کرنے کے امریکی مطالبات میں تیزی آئے گی۔

پاکستانی فوج کا موٴقف ہے کہ جنوبی وزیرستان میں شدت پسندوں کی کمر توڑ دی گئی ہے اور فوجی آپریشن سے بھاگنے والے ان کے ساتھی ملک میں خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری کارروائیوں میں ملوث ہو رہے ہیں۔ تاہم فوجی حکام کا کہنا ہے کہ ملک کے کسی دوسرے علاقے بشمول شمالی وزیرستان کے کسی بھی طرح کا آپریشن کا فیصلہ حکومت خود اور مقامی حالات کو پیش نظر رکھ کر کرے گی نا کہ بیرونی دباوٴ میں آکر ایسا کوئی قدم اٹھایا جائے گا۔

دوسری طرف ڈرون حملوں کے ناقدین ان خدشات کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ ایسی کارروائیوں میں بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکیتں ملک میں امریکہ مخالف جذبات کو بھڑکا رہی ہیں جس کا فائدہ انتہا پسند قوتوں کو ہو رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG