رسائی کے لنکس

اعلٰی امریکی کمانڈر کا جنرل باجوہ سے رابطہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

علی رانا، محمد اشتیاق

پاکستان اور امریکہ نے باہمی تعاون کے تحت دہشتگردی کےخلاف جنگ میں مقاصد کے حصول پر اتفاق کیا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ دہائیوں پر محیط سیکیورٹی تعاون کے باوجود امریکی بیانات سے پاکستانی قوم کو مایوسی ہوئی ہے۔ پوری پاکستانی قوم سمجھتی ہے پاکستان کو دھوکا دیا گیا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ امریکی سینٹ کام چیف جنرل جوزف نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ٹیلی فون کیا۔ گزشتہ ہفتے امریکی سینیٹر کی جانب سے بھی آرمی چیف کو ٹیلی فون کیا گیا۔ جنرل جوزف نے کولیشن سپورٹ فنڈ سے متعلق بھی امریکی فیصلے سے آگاہ کیا۔

جنرل جوزف سے گفتگو میں آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان مالی امداد کی بحالی کا مطالبہ نہیں کر رہا صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے کردار کا احترام اور اعتراف چاہتے ہیں۔ کئی دہائیوں پر محیط سکیورٹی تعاون کے باوجود امریکی بیانات سے پاکستانی قوم کو مایوسی ہوئی ہے۔ پوری پاکستانی قوم سمجھتی ہے حالیہ بیانات سے دھوکا دیا گیا۔ مریکی امداد کے بغیر بھی پاکستان دہشت گردی کے خلاف اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ خطے میں بڑی طاقتوں کی آپس میں جنگ کے باعث پاکستان کو بہت نقصان ہوا۔

آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین پر موجود افغان باشندوں کے حوالے سے امریکی خدشات سے بخوبی آگاہ ہے۔ آپریشن ردالفساد کے تحت دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں تاہم اس مقصد کے لیے افغان پناہ گزینوں کی جلد وطن واپسی انتہائی اہم ہے۔

امریکی جنرل جوزف نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کی قدر کرتے ہیں۔ موجودہ صورتحال عارضی مرحلہ ہے۔ امریکہ پاکستان کے اندر کسی یک طرفہ کارروائی کا نہیں سوچ رہا۔ افغانستان کے خلاف پاکستانی سرزمین استعمال کرنے والوں سے نمٹنے میں تعاون چاہتے ہیں۔ امید ہے کہ موجودہ کشیدہ صورتحال کو جلد حل کرلیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے والے افغان عناصر کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں۔ دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی نہ ہونا پاکستان کی انسداددہشت گردی کوششوں کی نفی ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان مسائل اور اعتماد کے قفدان کو بات چیت سےحل کیا جاسکتا ہے۔ امریکہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔ بہتر حکمت عملی کا تقاضا ہے کہ پرائیوٹ طور پر یا اعلیٰ سطح پر بات چیت کی جائے۔

تجزیہ کار ماریہ سلطان کہتی ہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ رابطہ اہمیت کا حامل ہے۔

’’ بہت اہم رابطہ ہے کیونکہ ظاہر ہے صدر ٹرمپ کی ٹویٹ کے بعد جس قسم کے بیان امریکہ کی طرف سے آ رہے تھے اسی بات کا خدشہ تھا کہ امریکہ کوئی بھی یکطرفہ عسکری کارروائی اگر پاکستان میں کرتا تو یقینی طور پر پاکستان اور امریکہ تعلقات کے خاتمے پر بات ختم ہو گی۔ جو دونوں ممالک کے حق میں نہیں ہے اور یہ ایک بہتر قدم ہے جو امریکہ کی طرف سے لیا گیا ہے جہاں انہوں نے یہ بات واضح کی ہے کہ وہ پاکستان میں کسی قسم کی یک طرفہ عسکری کارروائی نہیں کریں گے۔‘‘

تجزیہ کار حسن عسکری نے کہا کہ اس رابطے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ہی ملک تعلقات بحال رکھنا چاہتے ہیں۔

’’ امن اور اعتماد کے لیے پاکستان اور امریکہ کو نہ صرف ایک دوسرے کے موقف کو سننا ہو گا بلکہ خدشات بھی دورے کرنے ہوں گے۔‘‘

واضح رہے کہ پاکستان کی سویلین حکومت میں شامل عہدیدار اور فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور اپنے حالیہ بیانات میں یہ کہتے رہے ہیں وہ امریکہ سے تعاون برقرار اور مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نئے سال کے آغاز پر اپنے پہلی ہی ٹوئٹ میں پاکستان سے متعلق سخت زبان استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُن کے ملک نے پاکستان کو گزشتہ 15 برسوں میں 33 ارب ڈالر بطور امداد فراہم کیے جس کے بدلے اُن کے بقول پاکستان سے امریکہ کو صرف’’ دھو کہ اور جھوٹ ہی ملا۔‘‘

جب کہ اس کے بعد امریکہ نے پاکستان کو فراہم کی جانے والی سیکیورٹی امداد بھی بند کرنے کا اعلان کر دیا۔

پاکستان کی حکومت پہلے ہی امریکی صدر کے بیان پر سخت ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے امداد سے متعلق اُن کے موقف کو مسترد کر چکی ہے۔

لیکن اس صورتِ حال میں دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی سطح پر کشیدگی مزید بڑھ گئی ہے۔

تاہم ایک روز قبل جمعرات ہی کو پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے کہا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان مختلف سطحوں پر بات چیت ہو رہی ہے، جس سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ دونوں ہی ملک تعلقات کو معمول پر لانے کی خواہش رکھتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG