سال نو کے موقع پر پاکستان کے بارے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹویٹ کے بعد پاکستان میں یہ قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ امریکہ پاکستان کے خلاف کیا اقدامات کرے گا۔
امریکی صدر نے اپنی ٹویٹ میں کہا تھا کہ ہم نے پاکستان کو 33 ارب ڈالر کی امداد دی لیکن پاکستان نے افغانستان میں امریکی فورسز کے خلاف لڑنے والے دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے۔ پاکستان امریکی لیڈروں کو بے وقوف سمجھتا ہے اور وہ انہیں دھوکہ دے رہا ہے۔
اسلام آباد نے امریکی صدر کی ٹویٹ کو ’ مکمل طور پر ناقابل فہم اور ناقابل تصور قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے اور اپنے اس موقف کا ایک بار پھر اعادہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کے استحکام اور دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے واشنگٹن کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے تیار ہے۔
پاکستانی راہنماؤں کا کہنا ہے کہ امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامی پر پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتا ہے۔
تاہم صدر ٹرمپ کے ٹویٹ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان لفظوں کی جنگ چھڑ گئی ہے، جو امریکہ اور پاکستان کے درمیان ان تعلقات کو جو تاریخی اعتبار سے کمزور اور نازک چلے آ رہے ہیں، ٹوٹ جانے کے خدشات کو مزید ہوا دے رہے ہیں۔
واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر عزیز احمد چوہدری نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اپنے رابطے قائم رکھنے چاہییں اور ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے جس سے تناؤ میں اضافہ ہو اور خطہ عدم استحکام سے دوچار ہو جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں تصادم کا راستہ اختیار کرے سے بچنا چاہیے۔ کیونکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک دوسرے سے الگ ہونا دونوں ہی ملکوں کے مفاد میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسے راستے تلاش کرنے چاہییں جس سے مل کر کام کرنے کے لیے اعتماد بحال ہو سکے۔
پاکستانی سفیر عزیز احمد چوہدری نے کہا کہ پاکستانی فورسز نے اپنی سرزمین کو دہشت گرد گروپس سے پاک کر دیا ہے۔ انہوں نے امریکی قیادت کی بین الاقوامی فورسز کی افغانستان کے استحكام اور قیام امن کی کوششوں میں پاکستان کے گراں قدر کردار کا بھی حوالہ دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آج آپ کو القاعدہ کا نام سنائی نہیں دے رہا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دہشت گرد گروپ کے خاتمے کے لیے پاکستان نے امریکی قیادت کی فورسز کو طویل عرصے تک تمام ضروری سہولتیں فراہم کیں۔ یہ ہمارے لیے شراکت داری کا ایک پراجیکٹ تھا اور اسے مالی مفاد اور زر کے پیمانے میں ماپا نہیں جانا چاہیے، بلکہ ان نتائج کو سامنے رکھا جانا چاہیے جو ہم نے مل کر حاصل کیے۔
پاکستانی سفارت کار امریکی انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ أفغانستان میں گورننس ، کرپشن، سیکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور داعش جیسے گروپ کے اس ملک میں قدم جمانے جیسے مسائل پر توجہ دینی چاہیئے، کیونکہ پڑوسی ملک میں ایسے علاقوں کا اضافہ جو حکومت کے کنٹرول میں نہیں ہیں، پاکستان اور خطے کے دوسرے ملکوں کے لیے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے صدر کی ٹویٹ کے بعد یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ جلد ہی تعزیراتی اقدامات کرنے والی ہے۔
پاکستان میں بڑے پیمانے پر یہ قیاس آرائیاں پائی جاتی ہیں کہ پاکستان کے سیکیورٹی عہدے داروں کو مبینہ طور پر دہشت گرد گروپس سے جوڑ کر ان پر پابندی لگائی جا سکتی ہے اور امریکی فوج یک طرفہ طور پر پاکستان کے اندر گہرائی تک حقانی نیٹ ورک اور داعش سے منسلک دہشت گرد وں کو ہدف بنا سکتی ہے۔ اس نیٹ ورک کو مبینہ طور پر پاکستان کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی سے جوڑا جاتا ہے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کہہ چکے ہیں کہ امریکی ایکشن کی صورت میں اس کا جواب عوامی امنگوں کے مطابق دیا جائے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھی ایکشن لیا ہے، اس کے اثرات کچھ عرصے کے بعد ظاہر ہونا شروع ہوں گے۔
پاکستان کی فوج اور لیڈروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی امداد سے متعلق صدر ٹرمپ کا 33 ارب ڈالر کا دعویٰ درست نہیں ہے۔
پاکستانی عہدے دار کہتے ہیں کہ تقریبا۱14 رب ڈالر کولیشن فنڈ کا حصہ تھے، یہ رقم پاکستان کو، افغانستان میں اتحادی کوششوں کی معاونت پر اخراجات کے سلسلے میں ادا کی گئی ۔
پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ انہوں نے واشنگٹن کو 22 ارب ڈالر کے اخراجاتی بل بھیجے ہیں جن میں سے 8 ارب ڈالر ابھی تک ادا نہیں کیے گئے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو تقریباً 70 ہزار انسانی جانیں کا نذرانہ پیش کرنا پڑا، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ اس کے علاوہ امریکی قیادت کی اتحادی فورسز کی جنگ کے رد عمل میں دہشت گردوں کے حملوں میں قومی معیشت کو 120 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔