امریکی محکمہٴ خارجہ نے کہا ہے کہ 2009ء میں پاکستان القاعدہ کا انتہائی مضبوط گڑھ بنا رہا جہاں سے امریکہ کی سرزمین کو ہدف بنایا جاتا رہا۔
دہشت گردی کے بارے میں جمعرات کو جاری ہونے والی رپورٹ میں محکمہٴ خارجہ نے بتایا ہے کہ انٹیلی جنس کمیونٹی اِس بات کا تعین کر چکی ہے کہ گذشتہ سال القاعدہ امریکہ کے خلاف سرگرمی کے ساتھ کاروائیوں کی منصوبہ بندی ، بھرتی، تربیت کرنے کا ساتھ ساتھ دہشت گردوں کو، جن میں مغربی یورپ اور شمالی امریکہ سے افراد شامل ہیں، امریکہ بھیجنے کی کوشش کرتی رہی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دیگر دہشت گرد گروہوں کی گٹھ جوڑ سے القاعدہ اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں کو فروغ دینے کی جستجو کرتی رہی۔ لیکن ، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ برس اِس دہشت گرد نیٹ ورک کو اہم نوعیت کے دھچکے لگ چکے ہیں، جِن میں اُن بنائے گئے منصوبوں کی راہ میں مسائل کا آڑے آنا، اور مسلمان آبادیوں کی طرف سے مخالفت کے عنصر کا سامنے آنا بھی شامل ہے۔
لیکن محکمہٴ خارجہ نے کہا کہ 25دسمبر کو یمن میں قائم القاعدہ کےایک گروہ کی طرف سے امریکی سرزمین پر طیارے کو دھماکے سے اُڑانے کی ناکام کوشش سے، نہ صرف القاعدہ کی طرف سے امریکہ پر حملہ کرنے کی خواہش کا اظہار ہوتا ہے بلکہ ایسا کر دکھانے کی صلاحیت کا علم ہوتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جِن میں امریکی شہری غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں یا پھر تشدد پرست انتہا پسند عناصر کے آلہٴ کار بنے۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جوں جوں آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ میں نوجوان طبقہ خطرے کا باعث بن سکتاہے۔ اِس میں کہا گیا ہے کہ اگر یورپ میں رہنے والے مسلمان اکثریت کے ساتھ ضم ہونے کے مسائل سے دوچار رہیں گے، تو اِس بات کا احتمال رہے گا کہ اُنھیں شدت پسندی کے لیے بھرتی کیا جاتا رہے ۔
محکمہٴ خارجہ کے رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکہ سائبر کاروائیوں پر توجہ مرکوز رکھے گا جب تک دہشت گرد پیسے منتقل کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال ، حملوں کی سازشیں مرتب کرنے اور رابطوں کے لیے نقل و حمل کے ذرائع استعمال کرتے رہیں گے۔