پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی مچھ جیل میں بند سزائے موت کے قیدی صولت مرزا کے ’ڈیتھ وارنٹ‘ دوسری مرتبہ جاری کر دیے گئے ہیں۔
اُدھر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے منگل کو ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ صولت مرزا کے ایک حالیہ وڈیو بیان کی روشنی میں مزید تحقیقات کے لیے حکومت نے صدر مملکت سے صولت مرزا کی پھانسی کو نوے دن کے لیے موخر کرنے کی درخواست کر رکھی ہے لیکن اُس پر تاحال فیصلہ نہیں ہوا۔
’’ایوان صدر سے یہ فیصلہ کے (صولت مرزا) کی پھانسی کی سزا کی تاریخ کو نوے دنوں کے لیے، ساٹھ دنوں کے لیے، یا ایک ماہ کے لیے موخر کیا جائے یا نا کیا جائے۔ یہ بنیادی طور پر صدر کی صوابید ہے۔‘‘
صولت مرزا سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے سابق رکن ہیں اور اُنھیں 19 مارچ کو پھانسی دی جانی تھی لیکن 18 مارچ کی شب اُن کی پھانسی 72 گھنٹوں کے لیے موخر کر دی گئی تھی۔
صولت مرزا کی پھانسی پر عمل درآمد سے چند گھنٹے قبل ہی غیر معمولی وڈیو پیغام میں اُنھوں نے متحدہ قومی موومنٹ اور اس پارٹی کے قائد الطاف حسین پر سنگین الزام عائد کیے تھے۔
لیکن الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے دیگر قائدین نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اُن کی جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔
صولت مرزا کو کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن ’کے ای ایس سی‘ کے مینجنگ ڈائریکٹر شاہد حامد، ان کے ڈرائیور اور اُن کے ایک محافظ کو 1997ء میں قتل کرنے کے جرم میں 1999ء میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
دریں اثناء وفاقی وزیر داخلہ نے یہ بھی بتایا کہ ایک نوجوان شفقت حسین کو سنائی گئی سزائے موت پر عملدرآمد ایک ماہ کے لیے موخر کر دیا گیا ہے تاکہ اُس کی عمر کے تعین کے حوالے سے تحقیقات کرائی جا سکیں۔
شفقت حسین کو 2004ء میں ایک کم سن بچے کو اغوا اور پھر قتل کرنے کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی اور اس سزا کے خلاف اس کی تمام اپیلیں مسترد ہو چکی تھیں۔
شفقت حسین کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ جب اُس نے جرم کا ارتکاب کیا تو وہ نابالغ تھا اس لیے اُس کی سزائے موت کو ختم کیا جائے۔
اُدھر منگل کو ملتان جیل میں سزائے موت کے ایک قیدی نصر اللہ کو پھانسی دے دی گئی۔ نصراللہ کو 1994ء میں قتل کے ایک مقدمے میں سزائے موت سنائی گئی تھی اور اُن کی تمام اپیلیں مسترد ہو چکی تھیں۔
پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر 16 دسمبر 2014ء کو دہشت گردوں کے مہلک حملے میں بچوں سمیت 150 افراد کی ہلاکت کے بعد حکومت نے سزائے موت پر عمل درآمد پر عائد عارضی پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد سے مجرموں کی سزائے موت پر عمل درآمد جاری ہے۔
انسانی حقوق کی مقامی و بین الاقوامی تنظمیوں اور یورپی یونین کی طرف سے پاکستان سے سزائے موت پر عملدرآمد کے فیصلے کو واپس لینے کے مطالبات تواتر سے سامنے آرہے ہیں۔ تاہم پاکستان کا کہنا ہے کہ سزائے موت پر سے پابندی ختم کرنا کسی بھی طور انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی نہیں ہے۔