پاکستان کی جانب سے چند روز قبل سینئر سفارت کار محمد صادق کو افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی مقرر کیا گیا ہے۔ ماہرین موجودہ حالات میں محمد صادق کی تقرری کو اہم قرار دے رہے ہیں۔
محمد صادق اس سے قبل پاکستانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے علاوہ کئی سال تک افغانستان میں پاکستان کے سفیر اور امریکہ سمیت کئی ملکوں میں پاکستان کے سفارتی مشن کا حصہ رہ چکے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی کی تعیناتی دونوں ملکوں کو قریب لانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
رواں ہفتے پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ کابل کے دوران بھی محمد صادق اُن کے ہمراہ تھے۔
محمد صادق کون ہیں؟
صوبہ خيبر پختونخوا کے ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والے محمد صادق وزارتِ خارجہ ميں ترجمان کے علاوہ برسلز، بيجنگ اور واشنگٹن ميں بھی اہم عہدوں پر کام کر چکے ہيں۔
محمد صادق 2008 تا 2014 کابل ميں پاکستان کے سفير رہے جس کے بعد 2016 ميں وہ نيشنل سيکیورٹی ڈويژن سے بطور سيکريٹری ريٹائر ہوئے۔
محمد صادق کا شمار ملک کے منجھے ہوئے سفارت کاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی تعیناتی کو نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔
افغانستان کے قائم مقام وزيرِ خارجہ محمد حنيف اتمر نے بھی محمد صادق کی تعیناتی کا خیر مقدم کیا ہے۔
محمد صادق خان کی تعيناتی اور مستقبل میں ان کے اختیارات کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگايا جا سکتا ہے کہ تعيناتی کے چند روز بعد ہی وہ پاکستانی فوج کے سربراہ قمر جاوید باوجوہ کے ہمراہ کابل گئے۔
محمد صادق نے آرمی چیف اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ کے ہمراہ افغان صدر اشرف غنی اور چیئرمین اعلٰی کونسل برائے مفاہمت عبداللہ عبداللہ سے ملاقاتیں بھی کیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر محمد صادق کو اختیارات دیے جائیں تو وہ دونوں ملکوں کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند کہتے ہیں کہ محمد صادق کی تقرری اچھی پیش رفت ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان افغانستان کو اب بہت اہمیت دے رہا ہے جس کی ماضی میں کمی تھی۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ محمد صادق تب ہی بہتر انداز ميں کام کر سکيں گے جب انہیں خود مختاری اور مکمل اختیارات دیے جائیں۔
رستم شاہ مہمند کے مطابق جيسے امريکہ نے زلمے خليل زاد کو وسیع اختیارات دیے اور انہیں یہ ہدف دیا کہ وہ امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کی راہ ہموار کریں۔ اسی طرح محمد صادق کو بھی اہداف دے کر اُنہیں آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔
رستم شاہ مہمند کے بقول اگر محمد صادق کو مختلف حکام کو ہی رپورٹ کرنی ہو اور دائرۂ کار وسيع نہ ہو تو پھر ان کی خدمات سے استفادہ نہيں کیا جا سکتا۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ انہيں ايک پاليسی لائن دی جائے اور بتايا جائے کہ اس پاليسی کے اندر رہتے ہوئے کام کرنا ہے۔ تب ہی وہ مطلوبہ نتائج دينے کے قابل ہوں گے۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی ميں پاکستان نے افغانستان ميں ايسے سفيروں کو تعينات کيا جن کی سرحد پار يا تو براہِ راست رشتہ دارياں تھيں يا ان کے افغانستان کے ساتھ ديرينہ سياسی روابط تھے۔
رستم شاہ مہمند کے مطابق چوں کہ افغانستان کی سوسائٹی قبائلی ہے اس لیے نہ صرف انفرادی تجربہ بروئے کار لانے کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ وہاں کے قبائلی رہنماؤں اور عمائدين کے ساتھ بھی واقفيت بہت ضروری ہوتی ہے۔
رستم شاہ مہمند کے بقول محمد صادق کئی سال تک کابل میں پاکستان کے سفیر رہے ہیں۔ انہیں خطے کی کافی معلومات ہیں اور ان کے تعلقات بھی ہیں۔ لہذٰا اس کا فائدہ ہو گا۔
رستم شاہ مہمند کہتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ محمد صادق کے زیادہ مراسم نہیں ہیں کیوں کہ اُن کا سیاسی دفتر قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہے۔ البتہ افغانستان کے اندر جتنے بھی دھڑے اور اہم شخصيات ہيں ان تمام کے ساتھ محمد صادق کے قريبی تعلقات ہيں جس کا وہ فائدہ اُٹھائیں گے۔
سابق سفارت کار کے بقول لگ بھگ تمام بڑے ملکوں نے افغانستان میں اپنے نمائندہ خصوصی تعینات کر رکھے ہیں۔ پاکستان نے یہ فیصلہ بہت تاخیر سے کیا جو اس بات کا مظہر ہے کہ اسلام آباد میں پالیسی کا فقدان ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں پاکستان کا تشخص متاثر ہوا۔ پاکستان کو وہاں ایک ناپسندیدہ ملک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کی وجوہات میں سرحد پر باڑ لگانا بھی ہے جس سے لامحالہ سرحد کے اُس پار رہنے والوں کے لیے مسائل پیدا ہوئے۔
ياد رہے کہ پاکستان نے افغانستان کی جانب سے ممکنہ طور پر دہشت گردوں کی آمد و رفت کو روکنے کے لیے سرحد پر 2017 ميں تقريبا 2600 کلوميٹر طویل باڑ لگانے کا فيصلہ کيا جو تکمیل کے آخری مراحل ميں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان سے آنے والے ہر فرد کے لیے ويزہ اور پاسپورٹ کی شرط بھی عائد کر دی۔
رستم شاہ مہمند کا کہنا ہے کہ چوں کہ افغان شہری عرصہ دراز سے پاکستان ميں علاج معالجے، پڑھائی يا اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے وقتاً فوقتاً آتے ہيں۔ ليکن پاسپورٹ اور ويزہ کی شرط سے اُنہیں مشکلات کا سامنا ہے۔ لہذٰا اب وہ علاج معالجے کے لیے بھارت کا رُخ کر رہے ہيں۔
سابق سفير کے مطابق دونوں ملکوں کے تعلقات میں سرد مہری کا اثر باہمی تجارت پر بھی پڑا۔ ان کے بقول پہلے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم تین ارب ڈالر تھا جو اب کم ہو کر 400 ملین ڈالر ہو گیا ہے۔
اُن کے بقول یہ خلا اب بھارت پُر کر رہا ہے وہ افغانستان کے ساتھ تجارت کو فروغ دے رہا ہے۔ ایران کی چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے وہ افغانستان میں اپنے قدم جما رہا ہے۔
رستم شاہ مہمند کہتے ہیں کہ وہ پرامید ہیں کہ بین الافغان مذاکرات جلد شروع ہو جائیں گے۔ لیکن اس عمل میں بھی پیچیدگیاں ہیں۔ طالبان چاہتے ہیں کہ 2001 میں جب اُن کی حکومت ختم کی گئی اسے بحال کیا جائے۔ لیکن افغان حکومت کا موقف ہے کہ ملک میں پارلیمنٹ اور سیاسی نظام موجود ہے اور طالبان اب صرف اسی میں شراکت دار ہو سکتے ہیں۔
افغان پارلیمان کے سابق اسپیکر ميرويس ياسينی نے محمد صادق خان کی تعيناتی کو سراہتے ہوئے کہا کہ يہ بہت ضروری تھا کيوں کہ وہ پورے خطے سے اچھی طرح سے واقف ہيں۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے مير ويس ياسينی نے کہا کہ محمد صادق سينئر سفارت کار ہيں اور جب ايک جانب زلمے خليل زاد اور دوسری جانب سے صادق خان ہوں تو يقيناً اس کے بہت مثبت نتائج آئیں گے۔
جاويد حميم کاکڑ کابل ميں مقيم سينئر افغان صحافی ہيں۔ ان کے مطابق پاکستان کی جانب سے محمد صادق خان کی تعيناتی ايک اچھا فیصلہ ہے۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سابق سفير کے نہ صرف مختلف سياسی پارٹيوں بلکہ شمالی اتحاد کے رہنماؤں سے بھی اچھے مراسم ہيں۔ ايسے ميں وہ خطے ميں بہت نماياں کردار ادا کر سکتے ہيں۔
حميم کاکڑ کے مطابق افغانستان ميں قيامِ امن پورے خطے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے يہاں جمہوریت کی حمايت کرنا ہو گی۔ کيوں کہ افغانستان کے شہری دوبارہ نوے کی دہائی کے حالات ميں نہيں جانا چاہتے۔