پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ رواں ہفتے اسلام آباد کا دورہ کرنے والے اعلیٰ سطحی افغان وفد نے کابل میں دہشت گرد حملوں سے متعلق معلومات پاکستان کو فراہم کی ہیں جن کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
تاہم پاکستانی حکام نے ایک مرتبہ پھر ان الزامات کی تردید کی ہے کہ حقانی نیٹ ورک یا افغان طالبان کی پاکستان مدد کر رہا ہے یا اُنھیں اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
افغانستان کے انٹیلی جنس ادارے ’این ڈی ایس‘ کے سربراہ معصوم ستانکزئی اور افغان وزیرِ داخلہ ویس برمک نے رواں ہفتے پاکستان کا دورہ کیا تھا جس کے دوران اُنھوں نے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی اور دیگر حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔
بعد ازاں دورے کے بعد واپس کابل پہنچنے پر افغان وزیرِ داخلہ اور انٹیلی جنس ادارے این ڈی ایس کے سربراہ نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ اُن کے ملک میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں میں گرفتار کیے گئے شدت پسندوں کے اعترافی بیان ثبوت کے طور پر پاکستانی حکام کے حوالے کیے ہیں۔
دونوں رہنماؤں کا کہنا تھا کہ گرفتار کیے گئے شدت پسندوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ اُن کی تربیت پاکستان میں ہوئی تھی۔
اُدھر خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق افغانستان کے صدر اشرف غنی نے جمعے کو اپنے ٹیلی ویژن خطاب میں پاکستان پر الزام لگاتے ہوئے اسے ’’طالبان کا مرکز‘‘ قرار دیا۔
افغان صدر کا کہنا تھا کہ ہمیں انتظار ہے کہ پاکستان اُن (دہشت گردوں) کے خلاف کارروائی کرے۔
جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں جب پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان سے افغانستان کی طرف سے لگائے گئے الزامات کے بارے میں پوچھا گیا تو اُنھوں ان کی تردید کی۔
’’ہم حقانی نیٹ ورک یا طالبان کی حمایت اور اُنھیں اپنی سرزمین استعمال کرنے دینے کے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔ پاکستان اپنی سرزمین پر تمام دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔‘‘
ترجمان محمد فیصل نے کہا کہ افغان وفد نے اپنے دورے کے دوران ’’ہم سے کچھ معلومات کا تبادلہ کیا، ہم فراہم کردہ معلومات کو دیکھیں گے اور جلد اُن سے رابطہ کریں گے۔‘‘
وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان ورکنگ گروپس کی سطح کے سلسلے میں پہلا مذاکراتی اجلاس ہفتے کو کابل میں ہو گا، جس میں پاکستانی وفد کی قیادت سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کریں گی۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ خواجہ آصف نے جمعرات کو اسلام آباد میں افغانستان کے سفارت خانے کے دورے کے موقع پر کابل میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف دونوں ملک اگر مل کر کام کریں تو کامیابی ممکن ہے۔
افغانستان میں رواں سال کے آغاز کے بعد سے دہشت گرد حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور صرف جنوری 2018ء میں کابل میں تین بڑے حملے کیے گئے جن میں انٹرکانٹیننل ہوٹل، ایک پرہجوم عوامی مقام اور ایک فوجی مرکز کو نشانہ بنایا گیا۔