پاکستان نے کہا ہے کہ افغان تنازع کو صرف مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے چار فریقی مشاورتی گروپ انتہائی مناسب فورم ثابت ہو گا۔
ترجمان دفترِ خارجہ محمد فیصل نے منگل کو سرکاری ریڈیو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ افغانستان کے مسئلے کا فوجی حل مکمل طور پر ناکام ہوا ہے اور جنگ سے تباہ حال افغانستان میں ان کے بقول گزشتہ 17 برسوں میں ہر طرح کے ہتھیار اور بارودی مواد استعمال کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ امن عمل کو آگے بڑھانے کے لیے پاکستان، چین، امریکہ اور افغانستان پر مشتمل چار فریقی مشاورتی گروپ انتہائی موزوں فورم ثابت ہو گا اور پاکستان ہر اس امن عمل کی حمایت کرتا ہے جو افغانوں کی زیرِ قیادت اور ان کی شمولیت سے شروع کیا گیا ہو۔
یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب کابل میں پے در پے دہشت گرد واقعات کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ان کا ملک طالبان سے بات چیت نہیں کرے گا۔
ٹرمپ انتظامیہ افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد کو بڑھانے کے علاوہ وہاں سرگرم شدت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کو بھی تیز کر چکی ہے۔
پیر کو واشنگٹن میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں شامل ملکوں کے سفیروں کے ایک وفد سے گفتگو میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے کو بھی اجاگر کریں گے کہ دہشت گرد گروپ کو "شکست دینے کے لیے مزید کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔"
تاہم پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ افغانستان میں طاقت کے استعمال کی پالیسی کارگر ثابت نہیں ہوئی اس لیے فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے کی سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
چار فریقی گروپ 2015ء میں تشکیل دیا گیا تھا جس کا مقصد امن عمل کے لیے راہ ہموار کرنا تھا۔
آئندہ ماہ افغان حکومت 'کابل پراسس' کے تحت ایک اہم کانفرنس بھی منعقد کرنے جا رہی ہے جس میں خطے کے ممالک کے علاوہ بین الاقوامی قوتوں کے نمائندے بھی شریک ہوں گے اور اس میں افغانستان میں قیامِ امن سے متعلق تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔
پاکستانی دفترِ خارجہ کے ترجمان نے اس کانفرنس کے ممکنہ نتائج سے متعلق کہا کہ اس کا دارومدار افغان حکومت کے "طرزِ عمل" پر ہے۔
ان کے بقول افغان پناہ گزینوں کی باعزت طریقے سے وطن واپسی، منشیات اور پوست کی کاشت میں اضافہ، منشیات سے حاصل ہونے والی رقم کا دہشت گردی کے لیے استعمال اور مبینہ طور پر افغان سر زمین سے پاکستان پر حملے جیسے مسائل اب بھی موجود ہیں۔
سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر اے زیڈ ہلالی کہتے ہیں کہ افغانستان میں امریکی اور دیگر بین الاقوامی فورسز کی موجودگی اور پھر افغان حکومت کی طرف سے اپنی قوت سے متعلق کیے جانے والے دعوؤں کے تناظر میں یہ توقع کی جا رہی تھی کہ حالات شاید بہتر ہوں لیکن ان کے بقول صورتحال مسلسل خراب ہوتی جا رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ صورتحال کو مزید پیچیدہ اور ابتر ہونے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ پیش رفت کی جائے۔
"یہ سوچا جا سکتا ہے کہ خطے کو عدم استحکام سے بچانے کے لیے کیا طریقہ کار اختیار کیا جائے اور پھر خود امریکہ کے لیے بھی ایک اچھا راستہ نکل سکتا ہے افغانستان کی صورتحال سے نکلنے کے لیے جو دن بدن پیچیدہ اور گمبھیر ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے لیے پاکستان کا تعاون لینا اوراس کے ساتھ رابطہ رکھنا بہت ضروری ہے اور کوئی ایسا حل نکالا جائے کہ جس سے افغانستان بھی غیر مستحکم ہونے سے بچ جائے اور پاکستان کی سلامتی کے تقاضے بھی پورے ہو جائیں اور جو خدشات بڑھ رہے ہیں وہ بھی کم کیے جا سکیں۔"
اسی دوران افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ترجمان کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ ایسے میں جب حکومت بات چیت کے لیے طالبان کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے کابل میں ہونے والے حملے وہ سرخ لکیر ہیں جو پار کر لی گئی ہے۔
ترجمان شاہ حسین مرتاژوی کا کہنا تھا کہ طالبان نے یہ حد پار کر کے امن کا موقع گنوا دیا ہے۔