افغانستان نے کہا ہے کہ اس نے حالیہ سلسلے وار حملوں میں پکڑے جانے والے ایک عسکریت پسند کا اعترافي بیان ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ اس کی تربیت پاکستان میں ہوئی تھی اور یہ کہ وہاں طالبان لیڈروں کو آزادانہ نقل وحرکت کی اجازت ہے۔
افغان وزیر داخلہ ویس احمد برمک نےکابل میں ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ یہ شواہد ایک روز پہلے اسلام آباد میں ایک ملاقات کے دوران پاکستانی حکام کے حوالے کیے گئے۔
افغانستان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ معصوم ستانکزئی نے بھی وزیر داخلہ کے ساتھ پاکستان کے فوجی اور انٹیلی جینس کے عہدے داروں سے ملاقات کی۔
ستانکزئی نے اسی نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ انہوں نے پاکستان کو ثبوت دیے ہیں اور انہیں کہا ہے کہ وہ مستقبل میں ایسے حملوں کو روکنے کے لیے اقدامات کرے۔
انہوں نے بتایا کہ ہفتے کے روز پاکستانی وفد کی کابل آمد متوقع ہے۔
گذشتہ دنوں کابل میں سلسلے وار حملوں میں تقریباً 200 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن کی ذمہ داری طالبان اور داعش نے قبول کی تھی۔ أفغان حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے پیر کے روز کابل کے مضافات میں واقع ایک فوجی تربیتی مرکز پر حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں میں سے ایک کو پکڑ لیا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا جس میں 11 لوگ مارے گئے تھے۔
ستانکزئی نے نیوز کانفرنس میں کہا ہے کہ ان کارروائیوں کے بعد طالبان خود کو ایک سیاسی تنظیم کہلانے کے حق دار نہیں رہے ۔ وہ ایک دہشت گرد گروپ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ان سے مذاكرات نہ کیے جائیں۔
افغانستان اور پاکستان ایک طویل عرصے سے ایک دوسرے پر یہ الزام لگاتے آئے ہیں کہ وہ کمزور نگرانی کی سرحد کے آر پار حملے کرنے والوں کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔
امریکہ بھی پاکستان پر عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کا الزام لگانے کے بعد اس کی فوجی امداد معطل کر چکا ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغان عہدے داروں نے کہا ہے کہ تازہ ترین شواہد پکڑے جانے والے عسکریت پسند سے حاصل ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے پاکستانی عہدے داروں کو بتایا ہے کہ کچھ عسکریت پسندوں نے سرحدی قصبے چمن کے اسلامی مدرسوں میں تربیت حاصل کی تھی۔
افغان انٹیلی جینس کے سربراہ نے کہا کہ قومی مفاد کے تحفظ کے لیے تمام آپشن میز پر موجود ہیں، تاہم انہوں نے اس بارے میں کو ئی وضاحت نہیں دی۔
خبررساں ادارے روئیٹرز نے افغان حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان نے فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں ’ عملی اقدامات ‘کا وعدہ کیا ہے۔ لیکن کابل میں پاکستانی سفارت خانے نے کہا ہے کہ ستانکزئی سے ملنے والی معلومات کے مصدقہ ہونے کی تصدیق کی جا رہی ہے۔ سفارت خانے کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے افغان انٹیلی جینس کے سربراہ سے اسلام آباد کے دورے کے موقع ان سے کسی قسم کا کوئی وعدہ نہیں کیا ۔
جمعرات کے روز پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اسلام آباد میں افغانستان کے سفارت خانے کا دورہ کیا۔ اس نوعیت کا دورہ شاز و نادر ہی ہوتا ہے۔ انہوں نے افغان سفیر کے ساتھ ملاقات میں دہشت گردی کی جنگ مل کر لڑنے پر زور دیا۔