رسائی کے لنکس

دہشت گرد ٹھکانوں کے خاتمے کے لیے کمانڈروں کو اختیار و وسائل فراہم: امریکہ


فائل
فائل

دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ’’امریکہ کو لاحق سکیورٹی کے خدشات سے نبردآزما ہونے کے لیے، صدر مسلسل دباؤ کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں گے، جس میں سخت گیر اسلامی دہشت گردی اور نظریات کا مقابلہ کرنے اور اسے شکست دینے کی کوششوں کو اولیت دی جائے گی‘‘۔

صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جنوبی ایشیا سے متعلق حکمتِ عملی کی بنیاد ’’درپیش صورت حال سے نمٹنے‘‘ پر رکھی گئی ہے، جس ضمن میں، کمانڈروں کو درکار اختیار اور وسائل فراہم کیے گئے ہیں کہ ’’ضرورت پڑنے پر وہ افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانوں کے حصول سے روکیں‘‘۔

صدر ٹرمپ نے پاکستان کو سکیورٹی کی امداد معطل کر رکھی ہے، ’’جس سے امداد حاصل کرنے والوں کو طویل مدت کی تاخیر کے بعد یہ پیغام ملا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ انسداد دہشت گردی کے کام میں ہمارے ساتھ مکمل طور پر شامل ہو جائیں‘‘۔

یہ بات وائٹ ہاؤس کی جانب سے جمعرات کو جاری کردہ ایک حقائق نامے میں کہی گئی ہے۔

حقائق نامے میں کہا گیا ہے کہ ’’امریکہ کو لاحق سکیورٹی کے خدشات سے نبردآزما ہونے کے لیے، صدر مسلسل دباؤ کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں گے، جس میں سخت گیر اسلامی دہشت گردی اور نظریات کا مقابلہ کرنے اور اسے شکست دینے کی کوششوں کو اولیت دی جائے گی‘‘۔

صدر ٹرمپ نے اپنے اتحادیوں پر یہ بات واضح کردی ہے کہ ’’دہشت گردی کی حمایت یا درگزری کرنے والا امریکہ کا دوست نہیں ہوسکتا‘‘۔

دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ’’صدر مشرق وسطیٰ کے اپنے اتحادیوں اور ساجھے داروں میں امریکی قیادت کی تشکیل کردہ پالیسیوں پر عمل درآمد پر یقین رکھتا ہے‘‘۔

اِس ضمن میں، واضح کیا گیا ہے کہ ’’مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے اتحادیوں اور ساتھیوں کو ایک ہی سوچ پر عمل پیرا ہونے کی جہدوجہد کی جائے گی، جس سے دہشت گرد پروپیگنڈا کا توڑ کرنے کے لیے قابل اعتماد شخصیات کو بااختیار بنانا شامل ہے، اور جبر و استبداد اور انتہا پسندی کی جگہ لینے کے لیے آزاد معاشرے کے قابلِ تقلید متبادل کو فروغ دیا جائے گا‘‘۔

وائٹ ہاؤس دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ ’’مقامی قوتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے اور زمین پر اپنے کمانڈروں کو لچک کی مزید گنجائش دے کر ہم نے داعش کو تقریباً مکمل شکست دی ہے‘‘۔

اور یہ کہ، ’’جب سے صدر ٹرمپ نے اقتدار سنجھالا ہے، عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے زیر کنٹرول رقبے کا تقریباً 100 فی صد واگزار کرالیا گیا ہے‘‘۔

حقائق نامے میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم اپنے ساتھیوں سے مل کر داعش کے اُن لاکھوں مسلح لڑاکوں کا پیچھا کرتے رہیں گے جو ابھی تک پکڑے نہیں گئے اور ہم تب تک سکون سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ہم داعش کا دیرپہ قلع قمع نہیں کرتے اور عالمی جہادی اور اُن کے نیٹ ورکس ملیا میٹ نہیں ہوجاتے‘‘۔

وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ ’’اس بات میں کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیئے کہ سکیورٹی کے میدان میں امریکہ کو لاحق چیلنجوں سے انتھک ہو کر لڑیں گے؛ جب کہ قدامت پسند اسلامی دہشت گردی اور نظریات کا مقابلہ کرنے اور شکست دینے کے لیے اپنی ترجیحات طے کر لی ہیں‘‘۔

ادھر کابل میں ’شہری حقوق کے تحفظ کی وکالت کرنے والے گروپ‘ کے حوالے سے اخبارات کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سال 2018ء کے پہلے ماہ کے دوران ہونے والی دہشت گردی میں اب تک 228 افراد ہلاک، جب کہ 364 زخمی ہوئے ہیں۔

بیان کے مطابق، مہلک ترین حملےطالبان کے ہاتھوں گذشتہ ماہ کابل میں ہوئے جن میں سینکڑوں افراد لقمہٴ اجل بنے اور زخمی ہوئے۔

وکالتی گروپ کے حقائق سے پتا چلتا ہے کہ 2018ء کا پہلا ماہ، صوبہٴ کابل کا اب تک کا خونریز اور مہلک ترین مہینا تھا جس میں 337 شہری ہلاک و زخمی ہوئے، جن میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ تمام حملوں کی ذمے داری طالبان نے قبول کی اور سارے ہی خودکش حملے تھے۔

بَری فوج کی کارروائی، فضائی حملوں اور بارودی سرنگوں کی زد میں آکر، ملک کے دیگر 18 صوبوں میں، جن میں ہرات، غزنی، فرح، قندوز اور جوزجان شامل ہیں، مزید 18 شہری ہلاک ہوئے۔

ہلاکتوں میں اضافے کےحوالے سے، پروجیکٹ کے سربراہ، عزیز احمد تسل نے بتایا ہے کہ خودکش حملوں، فضائی کارروائیوں، بھاری گولے لگنے، راکیٹ داغے جانے، ہدف بنا کر یا گھات لگا کر ہلاک کیے جانے کی کارروائیاں بھی شامل رہی ہیں۔

اُنھوں نے کہا ہے کہ ادارہ شہری آبادی کی ہلاکتیں اور مسلح گروہوں کی جانب سے شہروں میں کیے گئے خودکش حملوں پر اظہار تشویش کر چکا ہے، اور یہ تفصیل بیان کرنا چاہتا ہے کہ اگر سکیورٹی کے قیام کے لیے حکومت فوری اور پیشہ ورانہ اقدام نہیں کرتی، تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ آنے والے مہینوں کے دوران اس سے بھی شدید جانی نقصان واقع ہو۔

وکالتی گروپ کے نمائندے نے طالبان کے حالیہ حملوں کو ’’غیر اسلامی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام میں کسی بے گناہ کا قتل حرام ہے، جس کی سخت ممانعت کی گئی ہے۔

XS
SM
MD
LG