رسائی کے لنکس

امارات-اسرائیل معاہدے پر پاکستان کا محتاط ردِ عمل، وزیرِ اعظم و وزرا کی خاموشی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان نے اسرائیل امارات تعلقات کی بحالی پر محتاط ردِ عمل دیا ہے جب کہ وزیرِ اعظم سمیت کسی بھی وفاقی وزیر کی جانب سے کوئی ردِ عمل دیکھنے میں نہیں آیا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو امارات-اسرائیل معاہدے کو سامنے رکھتے ہوئے بڑے چیلنجز کا سامنا ہو گا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق عرب ممالک کی خارجہ پالیسی کا محور مسئلہ فلسطین پر مذہب کی بنیاد پر تھا لیکن اب معاشی مفادات کی بنیاد پر ہو گا۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کے دور رس اثرات ہوں گے۔

اُن کے بقول فلسطینیوں کے حقوق اور ان کی خودمختاری کا حق اس معاہدے میں شامل ہے جب کہ مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام بھی پاکستان کی اہم ترجیح ہے۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے انصاف پر مبنی جامع اور پائیدار امن کے لیے اقوامِ متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی قراردادوں اور عالمی قوانین کے مطابق ہمیشہ دو ریاستی حل کی حمایت کی ہے۔

حال ہی میں تعینات ہونے والے دفتر خارجہ کے ترجمان نے مزید کہا کہ ہمارا آئندہ کا لائحہ عمل اس بنیاد پر ہو گا کہ فلسطینیوں کے حقوق اور خواہشات کو کیسے برقرار رکھا جاتا ہے۔

اُن کے بقول پاکستان جائزہ لے گا کہ خطے کے امن، سیکیورٹی اور استحکام کو کیسے برقرار رکھا جائے گا۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت کسی بھی وفاقی وزیر کی جانب سے اس معاہدے پر کوئی بیان نہیں دیا گیا۔ تاہم بعض مذہبی جماعتوں نے معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے فیصلے کو مسلم دنیا یا امت کا فیصلہ نہیں کہا جا سکتا۔

تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟

ایران اور سعودی عرب میں پاکستان کے سابق سفیر آصف درانی کہتے ہیں کہ اس وقت امارات-اسرائیل معاہدہ صرف قومی مفاد کا معاملہ ہے، اُمّتِ مسلمہ کا کہیں کوئی معاملہ نہیں۔ اگر امہ کا کوئی معاملہ ہوتا تو اب تک بہت کچھ ہو چکا ہوتا۔

آصف دررانی کے مطابق مستقبل کے حوالے سے پاکستان کو جو بھی فیصلہ کرنا ہو گا وہ قومی مفاد کو دیکھ کر کرنا ہو گا۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار اویس توحید نے خبردار کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کو اس معاہدے کی وجہ سے بہت سے چیلنجز درپیش ہوں گے۔

اُن کے بقول ایک طرف اسرائیل، امریکہ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان اتحاد نظر آ رہا ہے جو پاکستان کے لیے بڑا چیلنج ہو گا جب کہ دوسری طرف چین، ایران اور پاکستان کی دوستی کئی ملکوں کو ہضم نہیں ہو رہی۔

بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط نے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے فلسطینی کاز کو نقصان پہنچا ہے۔ تاہم پاکستان کو کشمیر اور فلسطین پر اپنے اصولی مؤقف پر کھڑا رہنا چاہیے۔

عبدالباسط کہتے ہیں کہ دنیا میں 193 ملکوں میں سے 163 ممالک نے تو اسرائیل کو پہلے ہی تسلیم کیا ہوا ہے لیکن بہرحال کچھ مسلم ممالک میں اسرائیل کو تسلیم کرنے سے متعلق خدشات ہیں۔ اسی طرح پاکستان کو بھی خدشات ہیں۔

اُن کے بقول فلسطین ہو یا کشمیر، ہمیں اصولی مؤقف پر قائم رہنا چاہیے کیوں کہ مسئلہ فلسطین مسلمانوں کے لیے صرف سیاسی نہیں بلکہ مذہبی معاملہ بھی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں عبدالباسط نے بتایا کہ بحرین اور عمان پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کرتے رہے ہیں اور متحدہ عرب امارات نے معاہدہ کرنے سے قبل سعودی عرب کو اعتماد میں لیا ہے۔ جس سے لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں سعودی عرب بھی اسرائیل کو تسلیم کر لے گا۔ لیکن اس معاہدے سے فلسطین کو نقصان ہو گا یا فائدہ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔

سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلقات پر سابق سفارت کار عبدالباسط کا کہنا تھا کہ یہ درست نہیں کہ عرب ممالک پاکستان کی بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر پر ہمارے مؤقف کی حمایت نہیں کرتے۔ ان کے بقول پاکستان کو جلد بازی سے نہیں بلکہ خطے کی بدلتی صورت حال کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ بھی اٹل نہیں کہ اگر ہم اسرائیل کو تسلیم کر لیں تو ہمارے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات ٹھیک ہو جائیں گے۔

تجریہ کار لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے کہا کہ پاکستان کو خطے میں بدلتے ہوئے حالات کو دیکھ کر فیصلہ کرنا ہو گا۔ اسرائیل کو تسلیم کریں یا نہ کریں یہ متفقہ قومی فیصلہ پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی اختلاف ہوتا ہے کہ تو پھر اس پر ہمیں آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ فلسطین پر اس کا مؤقف اصولی ہے یا نہیں۔ اگر اصولی ہے تو پھر اس پر ہمیں پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔

امجد شعیب کے بقول، پاکستان میں اسرائیل سے متعلق دو مؤقف پائے جاتے ہیں، ایک یہ کہ اسرائیل فسلطین پر بہت ظلم کر رہا ہے اور ان کی زمینوں پر قبضہ کر رہا ہے اس لیے ہمیں اسرائیل کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے اور دوسری رائے یہ ہے کہ اسرائیل سے تعلقات نہ بڑھانے پر کون سا ہم نے مسئلہ فلسطین حل کر لیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عرب ممالک جو اسرائیل سے معاہدہ کر رہے ہیں وہ اسرائیل کو مسئلہ فلسطین پر مذاکرات کے لیے آمادہ کرلیں۔

پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا ردِ عمل

امارات-اسرائیل معاہدے پر اب تک پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی کوئی واضح مؤقف سامنے نہیں آیا ہے۔

پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے امارات-اسرائیل معاہدے پر کہا تھا کہ یہ معاہدہ فلسطینیوں کی جدوجہدِ آزادی کی نفی کرتا ہے۔ کمزور مسلمان ممالک کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں۔

اسرائیل امارات معاہدہ کے خلاف راولپنڈی میں جماعت اسلامی نے بھی ایک ریلی نکالی تھی۔ شرکا سے خطاب میں امیرِ جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کا معاہدہ کرا کے ٹرمپ امریکہ میں الیکشن جیتنا چاہتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا اجلاس بلا کر یہ معاہدہ ختم کرنا چاہیے اور متحدہ عرب امارات اس معاہدے پر نظر ثانی کرے۔

سینیٹر سراج الحق کے بقول جس طرح اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش فلسطین میں ہوئی وہ سب کچھ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بانی پاکستان محمد علی جناح نے بھی اسرائیل کو ناجائز ریاست کہا تھا اور ہمیشہ اہلِ فلسطین کا ساتھ دیا تھا۔

XS
SM
MD
LG