ماہرِ موسمیات اور گجرات یونیورسٹی کے وائس چانسلر، پروفیسر نظام الدین کا کہنا ہے کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ شدید بارشوں یا گلیشئیر پگلنےکےباعث آنے والے سیلابوں سے بچنےکے لیے ایک پائیدار نظام وضع کیا جائے، جس میں تالاب اور چھوٹے ڈیم بنا کر پانی کو ذخیرہ کیا جائے۔ اِس طرح، نقصانات سے بھی بچا جاسکتا ہے اور ساتھ ہی،بوقتِ ضرورت پانی استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اور تو اور، پاکستان میں نکاسی آب کا بھی کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں کہ ڈرین بنا بھی لیں تو کہاں جا کر گِرے، لہٰذا، اکثرو بیشتر ڈرین کا پانی بھی دریا میں ڈال دیا جاتا ہے۔
پیر کو ’وائس آف امریکہ ‘سے خصوصی گفتگو میں اُنھوں نے کہا کہ اِس سال سندھ میں ہونے والی برساتیں شدید نوعیت کی تھیں، جن کی نہ توپہلے سے کوئی پیش گوئی کی گئی تھی نہی اِس اضافی پانی سے نمٹنے کا کوئی نظام موجود تھا، جِس کے باعث جانی، مالی اور زرعی نقصانات ہوئے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ دوسری طرف ہمارے کچھ دریاؤں کا پانی بھی سندھ میں جا کر گِرتا ہے، جہاں اضافی پانی سےنمٹنے کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ اِسی لیے، نہ تو ہمارے شہروں کی سڑکیں زیادہ پانی کے زور کی متحمل ہو سکتی ہیں نہ ہی ہمارا عام رہن سہن اس قابل ہے کہ ہم اس کا مقابلہ کر سکیں۔
ایک سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ پرانے زمانے میں دیہات کے ساتھ پانی ذخیرہ کرنے کےلیےتالاب اور کنویں ہوتے تھے، جہاں اضافی پانی کو اسٹور کر لیا جاتا تھا۔ اُن کے الفاظ میں ہمارے پاس اتنا بڑا زمینی رقبہ ہے، ریگستان اور اوپن فیلڈز ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ بڑے بڑے Culvertsبنا لیں جِن پر بہت زیادہ اخراجات نہیں اُٹھیں گے اور یہ کارگر بندوبست ہوگا۔
پروفیسر نظام الدین نے موسموں میں تبدیلی کا ذکر کیا اور کہا کہ اِس کا اثر پاکستان میں بھی واضح طور پر نظر آتا ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: