عزت اللہ آواز معذوران نامی ایک تنظیم کے صدر ہیں۔۔۔ وہ یہاں کوئٹہ پریس کلب کے باہر اپنے کچھ دیگر ساتھیوں کے ہمراہ احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں۔۔۔ ان کا مطالبہ ہے کہ بلوچستان میں سرکاری ملازمتوں میں جسمانی طور پر معذور افراد کے لیے دو فیصد کوٹہ پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
’’صوبائی حکومت سے اپیل ہے کہ گزشتہ 68 سالوں میں کے دوران جسمانی طور پر معذور افراد کے کوٹے پر جتنے بھی لوگوں کو بھرتی کیا گیا ہے ان کے خلاف انکوائری کمیٹی تشکیل دی جائے اور (غلط طور پر بھرتی کیے گئے لوگوں کو) نوکریوں سے برخاست کیا جائے یہ لوگ معذوروں کے حق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔‘‘
کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر شہروں میں جسمانی معذوری کے شکار افراد خاص طور اُن سے پڑھے لکھے نوجوان اکثر سرکاری ملازمتوں اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔۔ صوبے میں ایسے معذور افراد کی تعداد کتنی ہے حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کے پاس مستند اعداد و شمار نہیں ہیں۔
صوبائی محکمہ سماجی بہبود بلوچستان ایسے معذور افراد کے حقوق کے لیے مسودہ قانون بھی تیار کر رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔ مجوزہ قانون میں معذور افراد کے لیے ملازمتوں میں مختص کوٹے کو دو فیصد سے بڑھا کر پانچ فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
بلوچستان میں سماجی بہبود کے ادارے کے منتظم محمد حنیف رند کا کہنا ہے کہ معذور افراد کو ملازمتوں میں دو فیصد کوٹہ کی فراہمی کے لیے حکومتی سطح پر تمام اداروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اخبارات میں معذور افراد کے کوٹہ کا ذکر ضرور کریں۔
’’حکومت بلوچستان نے سرکاری اداروں کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ وہ ملازمتوں کے اشتہارات میں معذور افراد کے کوٹہ کو ضرور شامل کریں اگر کوئی ادارہ ایسا نہیں کرتا تو اس کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی‘‘۔
عہدیداروں کا کہنا ہے کہ صوبے میں جسمانی طور پر معذور افرد کی درست تعداد جاننے کے لیے سرکاری طور پر کوائف اکٹھے کرنے کی مہم کے علاوہ غیر سرکاری تنظیموں نے بھی اس سلسلے میں کام شروع کر رکھا ہے۔