پاکستان میں صدارتی انتخابات 4 ستمبر کو ہونے جا رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے حکمران اتحاد نے عارف علوی کو نامزد کیا ہے جب کہ اپوزیشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے اعتراز احسن اور دیگرجماعتوں نے مولانا فضل الرحمن کو میدان میں اتارا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں اب تک ایک متفقہ امیدوار لانے میں ناکام رہی ہیں اگرچہ اب بھی پیپلز پارٹی اور حزب مخالف کی دوسری جماعتوں کو توقع ہے کہ آخری لمحوں تک ایک نام پر اتفاق کا امکان موجود ہے۔
تحریک انصاف نے اپنے نمبر پورے ہونے کا دعوی کیا ہے۔ لیکن چونکہ صدارتی انتخابات ایک شخص ایک ووٹ کی بنیاد پر نہیں ہوتا اور ہر صوبائی اسمبلی میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی تعدادکوئی بھی نتیجہ برآمد کر سکتی ہے۔ اور پھر حکومت اور اپوزیشن کے ارکان کی تعداد میں معمولی فرق نے صور ت حال کو بہت دلچسپ بنا دیا ہے۔
صدراتی انتخاب کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟ اس بارے میں سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن پاکستان کنور دلشاد نے بتایا کہ یہ انتخابات خفیہ ووٹنگ کے ذریعے اسی طرح ہوتے ہیں جس طرح اسپیکر کے انتخابات ہوتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کیوں کہ یہ ہائی پروفائل الیکشنز ہوتے ہیں، اس لیے اس میں چاروں صوبوں کے متعلقہ چیف جسٹس پریزائڈنگ آفیسر ہوں گے اور قومی اسمبلی کے پریذائڈنگ آفیسر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنیں گے اور چیف الیکشن کمیشن ریٹرننگ آفیسر ہوں گے۔الیکشن میں ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی صوبوں کی آبادی کی بنیاد پر ہوتی ہے جس میں بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد کو پیش نظر رکھ کر تناسب قائم کیا جاتا ہے۔
اس سوال پر کہ آخر اپوزیشن کے دونوں گروپ اپنے امیدوار کے نام پر کیوں ڈٹے ہوئے ہیں یونیورسٹی آف پنجاب لاہور کے پولیٹیکل سائنس ڈپارٹمنٹ کے ایسو سی ایٹ پروفیسر اور سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر رانا اعجاز احمد کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ دونوں گروپس کی ایک قسم کی انا پرستی ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ کیوں کہ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ نون کے امیدوار کو وزیر اعظم کے لیے ووٹ نہیں دیے تھے اس لیے وہ اب جوابی طور پر پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
تاہم نوائے وقت کےریذیڈنٹ ایڈیٹر اور تجزیہ کار جاوید صدیق نے اس کے جواب میں اس عام تاثر کا حوالہ دیا کہ پیپلز پارٹی قیادت پر سخت ہوتا ہوا مقدمات کا شکنجہ انہیں ایک متحدہ اپوزیشن کے طور پر کردار ادا کرنے سے روک رہا ہے ۔ کیوں کہ اس کا خیال ہے کہ اپوزیشن کا ساتھ نہ دے کر اور تحریک انصاف کے امیدوار کو جیتنے کا موقع فراہم کر کے شاید اس کی قیادت کو ان مقدمات میں کسی طرح کا ریلیف مل جائے گا۔
جاوید صدیق نے کہا کہ انہیں ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ اپوزیشن ایک نام پر متفق ہو کر صدارتی میدان ما ر سکتی ہے کیوں کہ دونوں طرف سے بہت زیادہ لابنگ اور کنوسنگ ہو چکی ہے لیکن اس کا منطقی نتیجہ تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی کی یقینی کامیابی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔
کنور آفتاب نے کہا کہ اگر اپوزیشن کسی ایک نام پر متفق ہو گئی تو صورت حال مختلف شکل اختیار کر سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ خاص طور پر اگر مسلم لیگ نون اور دوسری جماعتوں کے امیدوار مولانا فضل الرحمان کا نام واپس لے لیا جاتا ہے اور اعتزاز احسن اپوزیشن کے واحد امیدوار کے طور پر مقابلہ کرتے ہیں تو تحریک انصاف سخت مشکل میں آسکتی ہے۔