وزیراعظم کا انتخاب قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت کی بنیاد پر ہوتا ہے لیکن صدر کے انتخاب میں سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان بھی ووٹ ڈالتے ہیں۔ اس لیے خیال تھا کہ اپوزیشن متحد ہو کر صدارتی انتخاب میں تحریک انصاف کے لیے مشکلات پیدا کرے گی۔
لیکن پیپلز پارٹی نے اعتزاز احسن اور اپوزیشن کی دوسری جماعتوں نے مولانا فضل الرحمان کو صدارتی امیدوار نامزد کر دیا جس کے بعد تحریک انصاف کے امیدوار عارف علوی کی کامیابی آسان دکھائی دیتی ہے۔
لیکن اپوزیشن متحد کیوں نہیں ہوئی؟ پیپلز پارٹی الگ امیدوار کیوں سامنے لائی؟ اعتزاز احسن کے نام پر مسلم لیگ ن کو کیا اعتراضات ہیں؟
سینئر کالم نگار سجاد میر نے وائس آف امریکا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اعتزاز احسن نے ماضی قریب میں مسلم لیگ ن پر اس قدر کڑی تنقید کی ہے جسے لیگی رہنماؤں کے لیے برداشت کرنا مشکل ہے۔ انھوں نے بیگم کلثوم نواز کی بیماری پر نامناسب تبصرے کیے تھے۔
سجاد میر کے مطابق تاثر یہ ہے کہ آصف زرداری کے خلاف مقدمات کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی کچھ مجبوریاں ہیں۔ اپوزیشن کی دوسری جماعتوں کے ساتھ اجلاس ہوتے ہیں تو ان میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا انداز معذرت خواہانہ ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم مجبور ہیں لیکن ہمیں پارٹی پالیسی پر چلنا ہے۔ یوں سمجھیں کہ اس وقت پیپلز پارٹی ماضی والی اپوزیشن نہیں ہے۔
لیکن پیپلز پارٹی اپنا امیدوار لانے پر بضد تھی تو کوئی قابل قبول نام پیش کر سکتی تھی۔ ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟ سینئر تجزیہ کار حامد میر نے بتایا کہ مسلم لیگ ن یوسف رضا گیلانی کو صدارتی امیدوار کے طور پر قبول کرنے کو تیار تھی لیکن آصف زرداری نے یہ تجویز مسترد کر دی۔ اس کے بجائے انھوں نے اعتزاز احسن کو نامزد کیا حالانکہ وہ جانتے تھے کہ ان کے نام پر مسلم لیگ ن کبھی متفق نہیں ہو گی۔
حامد میر نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں پل کا کردار ادا کر رہے تھے۔ مسلم لیگ ن نے سوچا کہ انھیں صدارتی امیدوار بنانے سے پیپلز پارٹی دباؤ میں آ کر اعتزاز احسن کو دستبردار کروا لے گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
سینئر اینکرپرسن ندیم ملک کا کہنا ہے کہ الگ الگ صدارتی امیدوار نامزد کرنے سے اپوزیشن کے اندرونی خلفشار کا اظہار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ دونوں بڑی جماعتوں کی قیادت کو مختلف مقدمات کا سامنا ہے۔ مسلم لیگ ن کے سابق صدر نواز شریف جیل میں ہیں جبکہ آصف زرداری کے خلاف نیب میں پینتیس ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا کیس کھلا ہوا ہے۔ پارٹی لیڈرز دباؤ کا شکار ہیں اس لیے اپوزیشن جماعتوں کی آزادانہ فیصلے کی قوت ختم ہو چکی ہے۔