رسائی کے لنکس

مفاہمتی’ گولی‘ کا اثر : 2 الگ الگ سیاسی طاقتوں سے 2الگ الگ وزیراعظم منتخب


صدر زرداری کی سیاست سمجھنے کیلئے تمام سیاسی قائدین کو پی ایچ ڈی کرنا پڑے گی: جاوید ہاشمی

ملک میں نئے وزیراعظم کا انتخابی عمل مکمل ہوگیا۔ تجزیہ نگاروں، مبصرین اورسیاسی مدوجزر پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ پھر صدر زرداری کی مفاہمتی ’گولی ‘اپنا اثر دکھا گئی ہے۔ یہ گولی کا ہی تیر بہ ہدف نسخہ ہے کہ پیپلزپارٹی کےدو وزیراعظم ایوان سے منتخب ہوگئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں وزرائےاعظم کو منتخب کرنیوالی سیاسی طاقتیں الگ الگ تھیں۔

مارچ 2008ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے جمہوری پٹڑی پر اپنے سفر کا آغاز کیا تواس کے پاس اتنی طاقت نہ تھی کہ وہ اکیلے اسے دھکیل سکتی۔مسلم لیگ ن اور جے یو آئی (ف) اس کے شانہ بشانہ کھڑی ہوئیں ۔اس وقت پیپلزپارٹی کے حریف تھے مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم۔

انیس مارچ2008ء کو جب اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے چناؤ کا دن آیا تو پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن ، جے یو آئی (ف) کے اتحاد کی جانب سے اسپیکر کیلئے فہمیدہ مرزا کو منتخب کیا گیا اور ڈپٹی اسپیکر کیلئے فیصل کریم کنڈی کو جبکہ ان کے مخالف اتحاد میں شامل جماعتوں مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم نے دونوں عہدوں کیلئے بالترتیب سردار اسرار ترین اور ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت کو نامزد کیا تھا۔ ووٹنگ کے بعد بھاری مارجن سے پیپلزپارٹی کے اتحاد نے کامیابی حاصل کر لی ۔

چوبیس مارچ 2008ء کو حکمراں اتحاد کی جانب سے یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمیٰ کیلئے میدان میں اتارا گیا ۔ نتائج آئے تو یوسف رضا گیلانی کو ملی 264 ووٹوں کی دو تہائی اکثریت جبکہ حریفوں کی جانب سے کھڑ ے ہونے والے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی کو ملے صرف 42 ووٹ ۔ اس طرح یوسف رضاگیلانی وزیراعظم بن گئے ۔

ملک میں جمہوری ٹرین کا سفر چل نکلا ۔صدر آصف علی زرداری کے ہاتھ نہ جانے کون سی مفاہمتی گولی لگی کہ ن لیگ نے ساتھ چھوڑا تو ایم کیو ایم آ گئی ۔ ایم کیو ایم نے ساتھ چھوڑا تو ق لیگ آ گئی۔ جے یو آئی ف چھوڑ کر گئی تو ایم کیو ایم دوبارہ آ گئی۔ ٹرین چلتی رہی لیکن پیپلزپارٹی کے ساتھی بدلتے رہے ۔

جون دو ہزار بارہ آیا ۔ پیپلزپارٹی کو پھر نئے وزیراعظم کا انتخاب کرنا تھا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ کل جن لوگوں نے پیپلزپارٹی کے خلاف امیدوارکھڑے کئے تھے انہوں نے ہی آج پیپلزپارٹی کے دوسرے وزیر اعظم کو منتخب کر ادیا جبکہ کل جنہوں نے پہلا وزیراعظم منتخب کرایا تھا آج ان کے امیدوار ہی پیپلزپارٹی سے شکست کھا چکے ہیں ۔

آج پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم نے وزارت عظمیٰ کیلئے راجہ پرویز اشرف کو میدان میں اتارا تو صدر زرداری کی پالیسی نے پرانے حلیفوں اور حالیہ حریفوں کو اتنا تقسیم کر دیا کہ وہ اپنا مشترکہ امیدوار بھی سامنے نہ لا سکے ۔ جے یو آئی (ف) نے فضل الرحمن کو سامنے کیا تو مہتاب عباسی ن لیگ کی سرپرستی میں وزارت عظمیٰ کے امیدوار وار بنے ۔ حکمراں اتحاد کے راجہ پرویز نے حاصل کی 211 اراکین کی حمایت جبکہ مہتاب عباسی نے 89 ووٹ حاصل کیے ۔

غرض دونوں مرتبہ فتح پیپلزپارٹی کی ہوئی ۔پہلی مرتبہ شکست مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کا مقدر بنی تو دوسری مرتبہ جے یو آئی ف اور مسلم لیگ ن ہار گئی۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ سیاست میں کوئی چیز حرف آخر نہیں ہوتی۔ لیکن بقول تحریک انصاف کے رہنما جاوید ہاشمی ” صدر زرداری کی سیاست سمجھنے کیلئے تمام سیاسی قائدین کو پی ایچ ڈی کرنا پڑے گی “ اب فیصلہ آپ پر ہے کہ صدر زرداری کی مفاہمتی گولی پر یقین کریں یا نہ کریں۔

XS
SM
MD
LG