راجہ پرویز اشرف ملک کے نئے وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھا چکے ہیں۔ حکومت کی مدت مکمل ہونے میں 240 کے قریب دن باقی ہیں۔ لیکن، اس وقت بھی جو سوال اٹھایا جا رہا ہے وہ ہے کہ کیا پرویز اشرف ان چند گنے چنے دنوں کے لیے بھی وزارت عظمی کا منصب اپنے پاس رکھ پائیں گے؟
اس سوال کا حتمی جواب تو شاید کسی کے پاس نہ ہو مگر بہت سے ذہنوں میں اس بارے میں خدشات اور تحفظات ہیں۔
ان خدشات کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ اولا ً سپریم کورٹ کے اس حکمنامے کا کیا ہو جس کے مطابق وزیراعظم پاکستان کو سوئس حکام کو منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے بارے میں خط لکھنا ہے؟ اور دوئم بجلی کی طویل بندش کے خلاف اس وقت عوام کا جو غیض و غضب سڑکوں پر نظرآ رہا ہے کیا بجلی کے وزیر کی حیثیت سے اپنے وعدوں کی پاسداری میں ناکام رہنے والے راجہ پرویز اشرف، وزیراعظم کی حیثیت سے عوام کو کوئی امید دلا سکیں گے ؟ سوال یہ بھی ہے کہ حکومت سے عاجز آئی ہوئی اپوزیشن کیا راجہ پرویز اشرف کو’ہنی مون‘ جتنا بھی وقت دے گی؟
مبصرین کے بقول، بلا شبہ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے کہ ملک کے اندرایک طرح کے سیاسی بھونچال کےباوجود پارلیمنٹ بطور ادارہ صحیح و سالم ہے اور ایک وزیراعظم کی معزولی کے بعد دوسرے نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ مگر اس وزیراعظم کے سر پر بھی جو تلوار لٹک رہی ہے وہ ہے عدلیہ کے حکم پر من و عن عمل درآمد۔ صدرآصف علی زرداری واشگاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ وہ سوئس حکام کو خط لکھنے کو پیپلزپارٹی کے وارثوں کی قبروں کے ٹرائل کے مترادف سمجھتے ہیں اور پارٹی یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ وہ یہ خط نہیں لکھے گی۔ یہی وہ وقت تھا جس پر وزیراعظم گیلانی ڈٹے رہے تآنکہ ان کے ساتھ سابقہ کا لاحقہ نہیں لگ گیا۔ نئے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے پاس بھی اس حوالے سے ’’کھیلنے‘‘ کی زیادہ گنجائش نہیں ہے۔ بقول مبصرین کے، انہیں یا توفاروق لغاری بننا ہے اور پارٹی لائن سے انحراف کرنا ہے یا پھر یوسف رضا گیلانی جیسے انجام سے دوچار ہونا ہے۔ درمیان کا راستہ فی الوقت نظر نہیں آ رہا۔ اس سارے عمل میں انہیں کتنے دن ملیں گے، بقول تحریک انصاف کے رانما سابق جسٹس وجیہہ الدین کے 30 سے 90 دن۔ تجزیہ کار فاروق عادل بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ اور پلڈیٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کی رائے بھی کچھ مختلف نہیں۔
رہ گیا بجلی کے بحران کا چیلنچ، تو مبصرین کے بقول حالات کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو اس بحران کا حل راجہ پرویز اشرف کے بس سے باہر کی بات ہے۔ ایک وزیر کی حیثیت سے، جسے اپنا کل وقت اسی بحران کے حل پر صرف کرنا تھا، اگر وہ کامیاب نہیں ہو سکے تو ایک وزیراعظم کے طور پر، جسے اور بھی بیسیوں مسائل کو دیکھنا ہے وہ کیا مداوا کر سکیں گے۔
اب بات کرلیتے ہیں اپوزیشن کی۔ اپوزیشن کے تیور بظاہر زیادہ اچھے نہیں ہیں ۔ نواز لیگ کے قائد چوہدری نثار علی خان نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ صدر زرداری نے پرویز اشرف کا انتخاب کر کے وزیراعظم کا رتبہ خاک میں ملا دیا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی راجہ صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ لگتا ہے کہ وہ راجہ پرویز اشرف کو ہنی مون پیریڈ بھی دینے کو تیار نہیں ہے اس طرح وزارت عظمی کا منصب، راجہ پرویز اشرف کو شاید ایک دن بھی پھولوں کی سیج جیسا احساس نہ ہونے دے بلکہ پہلے لمحے سے ہی کانٹوں کا بسترمحسوس ہو۔ نواز لیگ اور تحریک انصاف اگر حکومت کے خلاف احتجاج میں ایک دوسرے کے اتحادی بن جاتے ہیں، جو بظاہر مشکل مگر ناممکن نہیں ہے تومبصرین کے بقول حکومت کے لیے دھرنوں کی سیاست کا سامنا خاصا مشکل ہو جائے گا۔
راجہ صاحب نے حلف اٹھانے سے قبل اگرچہ اس عزم کا اظہار کیا کہ بجلی کا بحران ان کی ترجیحات میں ہو گا اور وہ اداروں کے استحکام کے لیے کام کریں گے۔ پیپلز پارٹی کے سینئر راہنما خورشید شاہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی حکومت ملک کے ایک بہتر مستقبل کے لیے کوشاں ہو گی۔ مبصرین کے مطابق بہرحال اس بات کا کریڈٹ صدر آصف علی زرداری کو دینا ہوگا جنہوں نے حکومتی اتحاد کو بکھرنے نہیں دیا باوجودیکہ بعض حلقوں کی جانب سے ان خدشات کا اظہاربھی کیا جا رہا تھا۔
پیپلز پارٹی کے ایک راہنما سابق سنیٹر تاج حیدر کہتے ہیں کہ راجہ پرویز اشرف کی حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج عدلیہ کو سیاست سے پاک کرنے کا ہے۔ اس سوال پر کہ کیا حکومت چیف جسٹس کے خلاف کوئی ریفرنس بھیجے گی، ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے البتہ ’’فلیپین ماڈل‘‘ پر غور ہونا چاہیئے۔ ان کے بقول فلپین ماڈل میں سینٹ چیف جسٹس کا مواخذہ کر سکتی ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی پارٹی کی قیادت انہی خطوط پر سوچ رہی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ، ’ ایسا پوری قوم سوچ رہی ہے‘۔ تاج حیدر یہ بھی کہتے ہیں کہ ملک میں بجلی کا بحران نہیں، انرجی کا بحران ہے اور حکومت کی ترجیح ہے کہ یہ مسئلہ جلد از جلد حل ہو۔
اس سوال پرجمہوریت کی یہ کونسی شکل ہے جس میں سڑکوں پرنظر آنے والے جذبات اور پارلیمنٹ کے اندر پارٹیوں کی پوزیشن میں کوئی تال میل نہیں ہے، احمد بلال محبوب نے کہا کہ پارلیمانی ڈیموکریسی میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ منتخب راہنما اپنی پارٹی کی قیادت کے فیصلے کے برعکس ووٹ نہیں دے سکتے اور اب مسلم لیگ ہم خیال کے اس گروپ کی رکنیت ختم ہونے کے امکانات موجود ہیں جنہوں نے ووٹنگ کے عمل میں شرکت نہیں کی۔
مبصرین کے مطابق، راجہ پرویز اشرف صحیح اس مقام سے سفر شروع کریں گے جہاں پر یوسف رضاگیلانی کی قیادت میں تعطل آیا تھا، لہذا ان کے پاس مشکل فیصلوں کے لیےشاید زیادہ وقت نہ ہو۔۔۔