اسلام آباد —
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے سلامتی اور سیاسی اُمور سے متعلق اپنی جماعت کے سینیئر رہنماؤں سے منگل کو طویل مشاورت کی۔
اس اجلاس میں اہم وفاقی وزرا بھی شریک تھے اور شرکا نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طالبان جنگجوؤں سے مذاکرا ت میں پیش رفت اور سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے سے متعلق اُمور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
طالبان کی طرف سے ایک ماہ کی فائر بندی کے اعلان کی مدت منگل کو ختم ہو گئی۔
حکومت سے مذاکرات کی بحالی کے لیے کالعدم تحریک طالبان نے یکم مارچ کو فائر بندی کا اعلان کیا تھا۔ جس کے بعد حکومت کی چار رکنی کمیٹی نے گزشتہ ہفتے ملک کے قبائلی علاقوں کی سرحد کے قریب نامعلوم مقام پر طالبان شوریٰ سے پہلی براہ راست ملاقات بھی کی تھی۔
اگرچہ حکومت اور طالبان کے رابطہ کار مذاکراتی عمل میں پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کر چکے ہیں لیکن اس بارے میں کوئی اعلان سامنے نہیں آیا۔
جب کہ اس صورت حال میں دوسرا اہم معاملہ سابق صدر پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے سے متعلق ہے۔ فوج کے سابق سربراہ کا نام اُن افراد کی فہرست میں شامل ہیں جن پر ملک سے باہر جانے پر پابندی ہوتی ہے۔
پرویز مشرف پر پیر کو تین رکنی خصوصی عدالت نے غداری سے متعلق مقدمے میں فرد جرم عائد کرتے ہوئے اُن کی بیرون ملک جانے کی اجازت کے بارے میں درخواست پر کہا تھا کہ اس کا فیصلہ حکومت ہی کرے گی۔
سابق صدر نے اپنے وکیل کی وساطت سے کہا تھا کہ وہ شارجہ کے ایک اسپتال میں زیر علاج اپنی علیل والدہ کی عیادت کے علاوہ اپنے عارضہ قلب کے علاج کے لیے بھی ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں۔
یہ معاملہ پیر کی شب قومی اسمبلی میں زیر بحث آیا۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کیا جانا قانون کی بالادستی کو ظاہر کرتا ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ حکومت پرویز مشرف کی والدہ کو ’’ائیر ایمبولینس‘‘ کے ذریعے پاکستان واپس لانے کو تیار ہے۔
پرویز مشرف یا اُن کی جماعت کی طرف سے حکومت کی اس پیش کش پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
اس اجلاس میں اہم وفاقی وزرا بھی شریک تھے اور شرکا نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طالبان جنگجوؤں سے مذاکرا ت میں پیش رفت اور سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے سے متعلق اُمور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
طالبان کی طرف سے ایک ماہ کی فائر بندی کے اعلان کی مدت منگل کو ختم ہو گئی۔
حکومت سے مذاکرات کی بحالی کے لیے کالعدم تحریک طالبان نے یکم مارچ کو فائر بندی کا اعلان کیا تھا۔ جس کے بعد حکومت کی چار رکنی کمیٹی نے گزشتہ ہفتے ملک کے قبائلی علاقوں کی سرحد کے قریب نامعلوم مقام پر طالبان شوریٰ سے پہلی براہ راست ملاقات بھی کی تھی۔
اگرچہ حکومت اور طالبان کے رابطہ کار مذاکراتی عمل میں پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کر چکے ہیں لیکن اس بارے میں کوئی اعلان سامنے نہیں آیا۔
جب کہ اس صورت حال میں دوسرا اہم معاملہ سابق صدر پرویز مشرف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے سے متعلق ہے۔ فوج کے سابق سربراہ کا نام اُن افراد کی فہرست میں شامل ہیں جن پر ملک سے باہر جانے پر پابندی ہوتی ہے۔
پرویز مشرف پر پیر کو تین رکنی خصوصی عدالت نے غداری سے متعلق مقدمے میں فرد جرم عائد کرتے ہوئے اُن کی بیرون ملک جانے کی اجازت کے بارے میں درخواست پر کہا تھا کہ اس کا فیصلہ حکومت ہی کرے گی۔
سابق صدر نے اپنے وکیل کی وساطت سے کہا تھا کہ وہ شارجہ کے ایک اسپتال میں زیر علاج اپنی علیل والدہ کی عیادت کے علاوہ اپنے عارضہ قلب کے علاج کے لیے بھی ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں۔
یہ معاملہ پیر کی شب قومی اسمبلی میں زیر بحث آیا۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کیا جانا قانون کی بالادستی کو ظاہر کرتا ہے۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ حکومت پرویز مشرف کی والدہ کو ’’ائیر ایمبولینس‘‘ کے ذریعے پاکستان واپس لانے کو تیار ہے۔
پرویز مشرف یا اُن کی جماعت کی طرف سے حکومت کی اس پیش کش پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔