اسلام آباد —
طالبان کے مقرر کردہ رابطہ کار پروفیسر محمد ابراہیم کا کہنا ہے کہ فائر بندی کی توسیع پر اتفاق اور باضابطہ اعلان میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوششیں بدستور جاری ہیں۔
اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہفتے کو ہونے والی ملاقات میں بھی ان امور کا جائزہ لیا گیا۔
’’مسائل تو یقیناً ہیں جس کی وجہ سے اعلان ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔ لیکن اگر عملاً مذاکرات ہوئے تو جنگ بندی ہی رہے گی اور امید ہے کہ رسمی طور پر اعلان بھی ہوجائے گا۔‘‘
جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر پروفیسر ابراہیم نے مذاکرات کے معاملے کی حساسیت کے پیش نظر فائر بندی میں توسیع سے متعلق مسائل کے بارے میں بتانے سے گریز کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ قیدیوں کی رہائی بات چیت کے عمل میں تیزی کا سبب بن سکتی ہے۔
’’حکومت کا قیدیوں سے متعلق تحقیق جاری ہے۔ یہ اعتماد سازی کی فضا بحال کرنے کا ایک قدم ہے اور قیدیوں کی رہائی جلد شروع ہو جائے گی۔‘‘
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کو اپنے رابطہ کاروں کے ذریعے چند سو افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے جو کہ عسکریت پسندوں کے بقول جنگجو نہیں.
جبکہ پروفیسر ابراہیم کے مطابق حکومت شدت پسندوں سے سابق وزیراعظم یوسف رضا اور سابق گورنر پنجاب کے صاحبزادوں سمیت پشاور یورنیورسٹی کے وائس چانسلر اجمل خان کی رہائی چاہتی ہے۔
ہفتے کو وفاقی وزیر داخلہ سے ملاقات کے بعد طالبان کے مقرر کردہ رابطہ کاروں کا کہنا تھا کہ وزیر نے مشاورت کے لیے چند روز کی مہلت مانگی ہے اور حکومت کے واضح موقف کے بعد ہی طالبان شوریٰ سے دوسری نشست کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
قانونی ماہر سلمان اکرم راجہ حکومت اور طالبان کے درمیان مجوزہ قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں کہتے ہیں۔
’’بات تو یہ ہو رہی ہے کہ انہیں چھوڑا جائے جن پر مقدمہ نہیں تو انہیں تو چھوڑا جا سکتا ہے اگر واقعی ہی ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں۔ دوسروں کے لیے اگر حکومت، استغاثہ سمجھے کہ ان کے خلاف مقدمہ چلانا ٹھیک نہیں تو وہاں عدالت کی اجازت سے چھوڑ سکتی ہے۔‘‘
نواز شریف انتظامیہ نے تحفظ پاکستان نامی صدارتی حکم نامے میں حال ہی میں توسیع حاصل کی ہے جس کے تحت مشتبہ شخص کو ایک لمبے عرصے تک سکیورٹی اداروں کی تحویل میں رکھ سکتے ہیں۔
ادھر پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں اتوار کی صبح سکیورٹی فورسز کے ایک قافلے کے گزرنے سے چند منٹ بعد سڑک میں نصب بم کا ایک زور دار دھماکا ہوا تاہم اس میں کسی قسم کے جانی و مالی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں کے گڑھ شمالی وزیرستان میں اس سے پہلے بھی سکیورٹی فورسز پر ملحق بم حملے ہوتے رہے ہیں لیکن شدت پسندوں نے یکم مارچ سے ایک ماہ کے لیے پرتشدد کارروائیاں نا کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔
اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہفتے کو ہونے والی ملاقات میں بھی ان امور کا جائزہ لیا گیا۔
’’مسائل تو یقیناً ہیں جس کی وجہ سے اعلان ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔ لیکن اگر عملاً مذاکرات ہوئے تو جنگ بندی ہی رہے گی اور امید ہے کہ رسمی طور پر اعلان بھی ہوجائے گا۔‘‘
جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر پروفیسر ابراہیم نے مذاکرات کے معاملے کی حساسیت کے پیش نظر فائر بندی میں توسیع سے متعلق مسائل کے بارے میں بتانے سے گریز کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ قیدیوں کی رہائی بات چیت کے عمل میں تیزی کا سبب بن سکتی ہے۔
’’حکومت کا قیدیوں سے متعلق تحقیق جاری ہے۔ یہ اعتماد سازی کی فضا بحال کرنے کا ایک قدم ہے اور قیدیوں کی رہائی جلد شروع ہو جائے گی۔‘‘
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے حکومت کو اپنے رابطہ کاروں کے ذریعے چند سو افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے جو کہ عسکریت پسندوں کے بقول جنگجو نہیں.
جبکہ پروفیسر ابراہیم کے مطابق حکومت شدت پسندوں سے سابق وزیراعظم یوسف رضا اور سابق گورنر پنجاب کے صاحبزادوں سمیت پشاور یورنیورسٹی کے وائس چانسلر اجمل خان کی رہائی چاہتی ہے۔
ہفتے کو وفاقی وزیر داخلہ سے ملاقات کے بعد طالبان کے مقرر کردہ رابطہ کاروں کا کہنا تھا کہ وزیر نے مشاورت کے لیے چند روز کی مہلت مانگی ہے اور حکومت کے واضح موقف کے بعد ہی طالبان شوریٰ سے دوسری نشست کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
قانونی ماہر سلمان اکرم راجہ حکومت اور طالبان کے درمیان مجوزہ قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں کہتے ہیں۔
’’بات تو یہ ہو رہی ہے کہ انہیں چھوڑا جائے جن پر مقدمہ نہیں تو انہیں تو چھوڑا جا سکتا ہے اگر واقعی ہی ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں۔ دوسروں کے لیے اگر حکومت، استغاثہ سمجھے کہ ان کے خلاف مقدمہ چلانا ٹھیک نہیں تو وہاں عدالت کی اجازت سے چھوڑ سکتی ہے۔‘‘
نواز شریف انتظامیہ نے تحفظ پاکستان نامی صدارتی حکم نامے میں حال ہی میں توسیع حاصل کی ہے جس کے تحت مشتبہ شخص کو ایک لمبے عرصے تک سکیورٹی اداروں کی تحویل میں رکھ سکتے ہیں۔
ادھر پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں اتوار کی صبح سکیورٹی فورسز کے ایک قافلے کے گزرنے سے چند منٹ بعد سڑک میں نصب بم کا ایک زور دار دھماکا ہوا تاہم اس میں کسی قسم کے جانی و مالی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔
القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں کے گڑھ شمالی وزیرستان میں اس سے پہلے بھی سکیورٹی فورسز پر ملحق بم حملے ہوتے رہے ہیں لیکن شدت پسندوں نے یکم مارچ سے ایک ماہ کے لیے پرتشدد کارروائیاں نا کرنے کا اعلان کر رکھا تھا۔