سعودی عرب نے تین سال تک پاکستان کو ہر سال تین اعشاریہ دو ارب ڈالر کا تیل ادھار دینے کی پیشکش کی ہے۔ معاشی ماہرین اور تجارتی رہنما اسے خوش آئند قرار دے رہے ہیں، لیکن بعض تاجر رہنما ڈالر کی مسلسل بدلتی ہوئی قدر کے پیش نظر کچھ تحفظات کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔
ممتاز ماہر معاشیات اور پاکستان کی وزارت خزانہ کے سابق مشیر ڈاکٹر اشفاق حسن نے موخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی کو ایک بڑی پیش رفت قرار دیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے پاکستان کی موجودہ معاشی صورت حال پر بہت مثبت اثر پڑے گا کیونکہ اس وقت پاکستانی معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ توازن ادائیگی ہے اور اسی وجہ سے ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا ہے۔
ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا تھا کہ ادھار پر تیل ملنے سے ادائیگیوں کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہو جائے گا۔ کیونکہ ہمیں تین اعشاریہ دو ارب ڈالر کا تیل سالانہ ملے گا جس کا مطلب یہ ہوا کہ اتنی ہی رقم کا ہمارا درآمدی بل کم ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ موخر ادائیگیوں سے درآمدات اور برآمدات کے فرق میں کمی آنے کے ساتھ ساتھ اتنی ہی مقدار میں بیرونی اکاوئنٹ کا خسارہ بھی کم ہو گا۔ جو پاکستانی معیشت کے حوالے سے ایک بڑی پیش رفت ہے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس سے زرمبادلہ کے آؤٹ فلو پر دباؤ میں بھی کمی آئے گی تو انہوں نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ بالکل ایسا ہی ہو گا اور پاکستان کے زرمبادلہ کی شرح پر بھی اس کا اچھا اثر پڑے گا۔
ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ایک اور بڑا مسئلہ ڈالر بھی ہے۔ اس کی طلب بہت زیادہ ہے کیونکہ پاکستان کی درآمدات بہت زیادہ ہیں۔ دوسری جانب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں جس کی وجہ سے اس کا بل بھی بڑھ رہا ہے۔ جس میں اب تین اعشاریہ دو ارب ڈالر سالانہ کی کمی ہو جائے گی۔
کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق صدر اور ممتاز تاجر عبداللہ زکی نے کہا کہ یہ پیشکش پاکستان کے لیے ایک نیک فال ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کی معیشت غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہے۔ ڈالر کی قیمت ایک جگہ ٹہر نہیں رہی ہے۔ ان حالات میں یہ ایک بڑی اچھی خبر ہے۔ اس سے دوسرے ملکوں کا پاکستان پر اعتماد قائم ہو گا۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ہمیں تیل ادھار دے رہے ہیں اور آج ڈالر کی جو قیمت ہے اگر وہ اس وقت نہ ہوئی جب ادھار کی ادائیگی کا وقت آئے گا تو اس وقت ڈالر کی قیمت کم یا زیادہ ہونے سے ادائیگیوں میں پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔ اس لیے ڈالر کا استحکام بھی بہت ضروری ہے۔
اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان پر پہلے ہی بہت قرضے ہیں تو کیا تیل کی موخر ادائیگی ایک اضافی بوجھ نہیں ہو گا؟ انہوں نے کہا کہ یہ تو درست ہے لیکن بعض حالات میں وقت کا تقاضا کچھ اس نوعیت کا ہوتا ہے کہ آپ کے پاس کوئی اور متبادل نہیں ہوتا۔ لیکن یہ امید کی جا سکتی ہے کہ بتدریج حالات پر قابو پا لیا جائے گا۔ اور اگر پاکستان تیس ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف مقرر کر کے کام شروع کرے تو اس ہدف کو حاصل کر کے ادائیگیوں کے توازن کے مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
مزید تفصیلات کے لیے اس آڈیو لنک پر کلک کریں۔