سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان رواں ہفتے کے آخر میں پاکستان کا دو روزہ سرکاری دورہ کریں گے، جو بطور ولی عہد ان کا اس ملک کا پہلا دورہ ہو گا۔ پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد کے اس دورے میں 10 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخطوں کا امکان ہے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات تاریخی طور پے بہت قریبی ہیں اور ان کا دائرہ زیادہ تر دفاعی، سیاسی اور معاشی شعبوں تک رہا ہے۔ پاکستانی عہدیداروں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی حکمران کے اس دورے سے اسلام آباد اور ریاض کے تعلقات میں مزید گرمجوشی پیدا ہو گی۔
پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے پاکستان میں سعودی متوقع سرمایہ کاری کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے اقتصادی تعلقات میں اضافہ ہو گا۔
تاہم، بین الاقوامی امور کے ماہر اور قائد اعظم یونیورسٹی کے پروفیسر ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ یہ عمومی تاثر درست نہیں ہے کہ سعودی عرب کو پاکستان سے کسی فوجی یا اسٹریٹجک تعاون کی ضرورت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ "میرے خیال ہے کہ سعودی عرب بیرونی ممالک میں تیل کے شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا اس لیے اہم ہو گا، کیونکہ پاکستان میں تیل کی مصنوعات کی بڑی طلب موجود ہے جس کی وجہ سے وہ گوادار میں تیل کی ریفائنری لگانا چاہتے ہیں۔ اس کا ہدف چین بھی ہو گا، یہاں سے انہیں ایک اور بڑی مارکیٹ تک رسائی مل سکتی ہے۔"
ظفر جسپال کا مزید کہنا ہے کہ سعودی عرب ریفائنری صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ بھارت میں بھی لگانا چاہتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ "پاکستان کے لیے یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں اور وہ مفاہمت کی جن یادداشتوں پر دستخط کریں گے ان پر عمل بھی ہو گا۔’’
تاہم، تجزیہ نگار ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ ’’اس وقت پاکستان اقتصادی طور پر یورو ایشیا کا مرکز بن رہا ہے، جس کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاروں اور دیگر ملکوں کے لیے پاکستان کی اہمیت بڑھ گئی ہے‘‘۔ ان کے بقول، اگر پاکستان میں سیکورٹی کی صورت حال بہتر ہو گی تو سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہو گا۔
ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ ایک یہ تاثر ہے کہ شاید سعودی عرب اپنے ملک میں پاکستانی فوجی دستوں کی تعیناتی کا خواہاں ہے۔ تاہم، ان کے بقول، اس میں کوئی حقیقت نہیں ہے، بلکہ یہ ایک خام خیالی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ‘‘اس وقت اسٹریٹجک شعبوں میں معاونت کے لیے سعودی عرب کی امریکہ کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے اور اس تناظر میں وہ پاکستان کے ساتھ کوئی ایسا سجھوتہ نہیں کریں گے جس سے ان کی امریکہ کے ساتھ جاری بات چیت پر منفی اثر پڑے۔’’
حالیہ چند برسوں میں بیرونی قرضوں میں اضافے اور برآمدات میں کمی کی وجہ سے پاکستان کو زرمبادلہ کے بحران کا سامنا رہا ہے۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین نے اپنے زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم بہتر بنانے کے لیے سرمایہ فراہم کیا ہے۔ لیکن، وہ انہیں استعمال میں نہیں لا سکتا۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنی معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے پاکستان کو بیرونی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے، جس کے لیے وہ سعودی عرب سمیت کئی دوست ممالک سے سرمایہ کاری حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
دوسری طرف سعودی عرب کی قیادت میں قائم فوجی اتحاد کے سربراہ اور سابق جنرل راحیل شریف سعودی عرب کے ولی عہد کے دورہ پاکستان سے قبل پیر کو پاکستان پہنچے اور انہوں نے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی۔ ان ملاقاتوں میں علاقائی امن و استحکام اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیالات ہوا۔
دوسری جانب بھارتی وزارتِ خارجہ کے مطابق سعودی ولی عہد اگلے ہفتے بھارت پہینچیں گے۔ جہاں سعودی عرب کے بڑے کاروباری افراد ان کے ساتھ ہوں گے۔ انہیں اس دورے کی دعوت بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے دے تھی۔
اطلاعات کے مطابق، اس دورے کے دوران ولی عہد محمد بن سلمان بھارت کے نیشنل انوسٹمنٹ اور انفرا سٹرکچر فنڈ سمیت کاشتکاری کے شعبے میں سرمایہ کاری کا اعلان کریں گے۔