اسلام آباد —
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن میں حکام کے مطابق اب تک جو دہشت گرد مارے گئے اُن میں ایک بڑی تعداد ازبک جنگجوؤں کی ہے۔
افغان سرحد سے ملحقہ ملک کے اس قبائلی علاقے میں تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کے ٹھکانوں کے علاوہ غیر ملکی شدت پسندوں نے بھی یہاں اپنے مراکز قائم کر رکھے ہیں۔
قبائلی علاقوں کی صورت حال پر نظر رکھنے والے مبصرین کا ماننا ہے کہ شمالی وزیرستان میں موجود غیر ملکی سخت گیر جنگجوؤں میں سب سے بڑی تعداد ازبک شدت پسندوں کی ہے۔
حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے گورنر سردار مہتاب احمد خان کی شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قبائلی عمائدین کے نمائندہ جرگے سے ملاقات میں بھی غیر ملکی جنگجوؤں کو اس علاقے سے باہر نکالنے پر زور دیا گیا۔
ازبک جنگجوؤں کا ذکر پاکستان میں اکثر سننے کو ملتا ہے، خاص طور پر آٹھ جون کو کراچی کے ہوائی اڈے پر دہشت گردوں کے منظم حملے کے بعد شدت پسند تنظیم اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ شمالی وزیرستان میں ازبک، چیچن، ایسٹ ترکمانستان اسلامک موومنٹ کے علاوہ افغان طالبان کے لوگ اس علاقے میں موجود رہے ہیں۔
اُنھوں نے ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ یعنی ’آی ٹی آئی ایم‘ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ چینی علیحدگی پسند مسلمان جنہیں ’ایغور‘ کہتے ہیں اُن کی تنظیم ہے۔
’’اس کے علاوہ پھر القاعدہ ہے (جس میں) کئی عرب ملکوں کے لوگ ہیں۔ سعودی عرب یمن، لیبیا، الجزائر، فلسطین اس میں ہر طرح کے لوگ ہیں یہ کچھ سو ہوں گے لیکن صیح اعداد و شمار نہیں ہیں، اور پھر آخر میں (غیر ملکیوں میں) افغان طالبان اور حقانی ینٹ ورک کا ذکر کم ہوتا ہے لیکن یہ بھی وہاں کافی موجود ہیں۔۔۔۔۔ پھر مقامی طالبان ٹی ٹی پی کے لوگ ہیں اور پھرغیر ٹی ٹی پی طالبان حافظ گل بہادر کے لوگ اور پھر پنجابی طالبان اور چھوٹی چھوٹی تنظیمیں ہیں۔‘‘
رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ غیر ملکی دہشت گردوں کی درست تعداد تو کسی کو معلوم نہیں لیکن سخت گیر جنگجو سینکڑوں میں ہو سکتے ہیں۔
’’لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک ہزار سے کم ہیں، ایک ہزار سے زیادہ بالکل نہیں ہوں گے اور اس میں اکثریت ازبک کی ہو گی۔ اور باقی جو افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک ہے اُن کو اگر ملائیں تو کئی سو (وہ) ہو ں گے۔ القاعدہ کے لوگ کم رہ گئے اور باقی جو تنظیمیں ہیں چھوٹی چھوٹی ’آی ٹی آئی ایم‘ چینی علیحدگی پسند (تو اُن کی تعداد) شاید سو سے بھی کم ہوں۔‘‘
رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں ازبک جنگجوؤں کے خاندان بھی آباد ہیں۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ سید نذیر کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ قبائلی علاقوں میں غیرملکی دہشت گرد موجود ہیں۔ جن میں زیادہ تعداد میں ازبک پھر تاجک اور چیچن اور کچھ عرب ہیں۔
اُن کہنا تھا کہ یہ دہشت گرد چھوٹے چھوٹے گروپوں میں یہاں مقیم ہیں۔ ’’شاید یہ ایک جگہ پر نہیں ہیں یہ مختلف جگہوں پر آٹھ آٹھ، دس دس یا زیادہ سے زیادہ بیس کی تعداد میں ہوتے ہیں اور یہ مقامی آبادی میں گھلے ملے ہوتے ہیں اور جہاں تک ان کے مراکز کی بات ہے ۔۔۔ زیادہ سے زیادہ کسی مدرسہ یا کسی احاطہ کو لے لیتے ہیں اور پھر جب آپریشن ہو رہا ہوتا ہے یا اس کی شنید ہوتی ہے اور یہ مقامی آبادی میں گھل مل جاتے ہیں۔‘‘
رحیم اللہ یوسفزئی کا ماننا ہے کہ بظاہر یہ لگتا ہے کہ غیر ملکی جنگجو اُن علاقوں میں چلے جائیں گے جہاں خطرہ کم ہو گا۔
’’وہ سامنے کی جنگ نہیں کرتے وہ تو چھپ کر گوریلا جنگ کرتے ہیں ۔ میرے خیال میں وہ فوج کو آنے دیں گے اس کے بعد گوریلا جنگ کریں گے سپلائی لائن کاٹیں گے خود کش حملے کریں گے لیکن فی الحال میرے خیال میں وہ ان علاقوں میں نہیں رہیں گے، میرعلی کا علاقہ جہاں یہ کافی تعداد میں تھے وہ یہاں سے نکل جائیں گے، میران شاہ سے نکل جائیں گے اور ممکن ہے کہ شمالی وزیرستاں کے دور افتادہ علاقوں میں رہیں۔ ایک شوال ویلی ہیں۔۔۔کچھ وہاں چلے جائیں۔‘‘
پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان کے وہ علاقے جہاں دہشت گرد موجود ہیں اُن کو گھیرے میں لے لیا ہے جب کہ پاکستان نے افغانستان سے بھی کہا کہ وہ اپنی سرحد بند کر دے تاکہ دہشت گرد وہاں فرار نا ہو سکیں۔
اُدھر افغانستان میں تعینات بین الاقوامی اتحادی افواج کے امریکی کمانڈر جنرل جوزف ڈنفورڈ نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کی کارروائی کے آغاز کے بعد پاک افغان سرحد کی نگرانی سخت کر دی گئی ہے۔
افغان سرحد سے ملحقہ ملک کے اس قبائلی علاقے میں تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کے ٹھکانوں کے علاوہ غیر ملکی شدت پسندوں نے بھی یہاں اپنے مراکز قائم کر رکھے ہیں۔
قبائلی علاقوں کی صورت حال پر نظر رکھنے والے مبصرین کا ماننا ہے کہ شمالی وزیرستان میں موجود غیر ملکی سخت گیر جنگجوؤں میں سب سے بڑی تعداد ازبک شدت پسندوں کی ہے۔
حال ہی میں صوبہ خیبر پختونخواہ کے گورنر سردار مہتاب احمد خان کی شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے قبائلی عمائدین کے نمائندہ جرگے سے ملاقات میں بھی غیر ملکی جنگجوؤں کو اس علاقے سے باہر نکالنے پر زور دیا گیا۔
ازبک جنگجوؤں کا ذکر پاکستان میں اکثر سننے کو ملتا ہے، خاص طور پر آٹھ جون کو کراچی کے ہوائی اڈے پر دہشت گردوں کے منظم حملے کے بعد شدت پسند تنظیم اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ شمالی وزیرستان میں ازبک، چیچن، ایسٹ ترکمانستان اسلامک موومنٹ کے علاوہ افغان طالبان کے لوگ اس علاقے میں موجود رہے ہیں۔
اُنھوں نے ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ یعنی ’آی ٹی آئی ایم‘ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ چینی علیحدگی پسند مسلمان جنہیں ’ایغور‘ کہتے ہیں اُن کی تنظیم ہے۔
’’اس کے علاوہ پھر القاعدہ ہے (جس میں) کئی عرب ملکوں کے لوگ ہیں۔ سعودی عرب یمن، لیبیا، الجزائر، فلسطین اس میں ہر طرح کے لوگ ہیں یہ کچھ سو ہوں گے لیکن صیح اعداد و شمار نہیں ہیں، اور پھر آخر میں (غیر ملکیوں میں) افغان طالبان اور حقانی ینٹ ورک کا ذکر کم ہوتا ہے لیکن یہ بھی وہاں کافی موجود ہیں۔۔۔۔۔ پھر مقامی طالبان ٹی ٹی پی کے لوگ ہیں اور پھرغیر ٹی ٹی پی طالبان حافظ گل بہادر کے لوگ اور پھر پنجابی طالبان اور چھوٹی چھوٹی تنظیمیں ہیں۔‘‘
رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ غیر ملکی دہشت گردوں کی درست تعداد تو کسی کو معلوم نہیں لیکن سخت گیر جنگجو سینکڑوں میں ہو سکتے ہیں۔
’’لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک ہزار سے کم ہیں، ایک ہزار سے زیادہ بالکل نہیں ہوں گے اور اس میں اکثریت ازبک کی ہو گی۔ اور باقی جو افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک ہے اُن کو اگر ملائیں تو کئی سو (وہ) ہو ں گے۔ القاعدہ کے لوگ کم رہ گئے اور باقی جو تنظیمیں ہیں چھوٹی چھوٹی ’آی ٹی آئی ایم‘ چینی علیحدگی پسند (تو اُن کی تعداد) شاید سو سے بھی کم ہوں۔‘‘
رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں ازبک جنگجوؤں کے خاندان بھی آباد ہیں۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ سید نذیر کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ قبائلی علاقوں میں غیرملکی دہشت گرد موجود ہیں۔ جن میں زیادہ تعداد میں ازبک پھر تاجک اور چیچن اور کچھ عرب ہیں۔
اُن کہنا تھا کہ یہ دہشت گرد چھوٹے چھوٹے گروپوں میں یہاں مقیم ہیں۔ ’’شاید یہ ایک جگہ پر نہیں ہیں یہ مختلف جگہوں پر آٹھ آٹھ، دس دس یا زیادہ سے زیادہ بیس کی تعداد میں ہوتے ہیں اور یہ مقامی آبادی میں گھلے ملے ہوتے ہیں اور جہاں تک ان کے مراکز کی بات ہے ۔۔۔ زیادہ سے زیادہ کسی مدرسہ یا کسی احاطہ کو لے لیتے ہیں اور پھر جب آپریشن ہو رہا ہوتا ہے یا اس کی شنید ہوتی ہے اور یہ مقامی آبادی میں گھل مل جاتے ہیں۔‘‘
رحیم اللہ یوسفزئی کا ماننا ہے کہ بظاہر یہ لگتا ہے کہ غیر ملکی جنگجو اُن علاقوں میں چلے جائیں گے جہاں خطرہ کم ہو گا۔
’’وہ سامنے کی جنگ نہیں کرتے وہ تو چھپ کر گوریلا جنگ کرتے ہیں ۔ میرے خیال میں وہ فوج کو آنے دیں گے اس کے بعد گوریلا جنگ کریں گے سپلائی لائن کاٹیں گے خود کش حملے کریں گے لیکن فی الحال میرے خیال میں وہ ان علاقوں میں نہیں رہیں گے، میرعلی کا علاقہ جہاں یہ کافی تعداد میں تھے وہ یہاں سے نکل جائیں گے، میران شاہ سے نکل جائیں گے اور ممکن ہے کہ شمالی وزیرستاں کے دور افتادہ علاقوں میں رہیں۔ ایک شوال ویلی ہیں۔۔۔کچھ وہاں چلے جائیں۔‘‘
پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان کے وہ علاقے جہاں دہشت گرد موجود ہیں اُن کو گھیرے میں لے لیا ہے جب کہ پاکستان نے افغانستان سے بھی کہا کہ وہ اپنی سرحد بند کر دے تاکہ دہشت گرد وہاں فرار نا ہو سکیں۔
اُدھر افغانستان میں تعینات بین الاقوامی اتحادی افواج کے امریکی کمانڈر جنرل جوزف ڈنفورڈ نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کی کارروائی کے آغاز کے بعد پاک افغان سرحد کی نگرانی سخت کر دی گئی ہے۔