اسلام آباد —
پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف "ضرب عضب" نامی بھرپور فوجی کارروائی جاری ہے جب کہ وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کی کامیابی کے لیے قومی اتحاد ناگزیر ہے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جمعرات کو جاری بیان میں بتایا کہ فورسز نے شمالی وزیرستان میں زرتنگی پہاڑی پر کوبرا گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے کارروائی کر کے 15 مشتبہ شدت پسندوں کو ہلاک کیا۔ اس علاقے میں شدت پسندوں نے ایک بڑا مواصلاتی مرکز قائم کر رکھا تھا۔
بیان میں مزید بتایا گیا کہ مرکزی قصبے میران شاہ اور میر علی کے درمیان واقع سڑک پر دھماکا خیز مواد نصب کرنے والے دہشت گردوں پر فوج کے ماہر نشانہ بازوں نے فائرنگ کر کے کم ازکم آٹھ ازبک جنجگوؤں کو ہلاک کردیا۔
فوج نے اتوار کو شمالی وزیرستان میں ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا تھا۔
اس دوران تین مرتبہ بغیر ہوا باز کے مشتبہ امریکی جاسوس طیارے سے بھی ایجنسی کے مختلف علاقوں میں میزائل حملے ہوئے جن میں بیس سے زائد لوگ مارے گئے جن کے بارے میں مقامی ذرائع کے مطابق غیر ملکی شدت پسند بھی شامل ہیں۔
پاکستان نے ان ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اپنے اس موقف کو دہرایا ہے کہ یہ اقدام اس کی ملکی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے جمعرات کو اسلام آباد میں ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں بتایا کہ ڈرون حملوں کا شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن سے کوئی تعلق نہیں۔
" ایسا بالکل نہیں ہے کہ ہم ان (ڈرون) حملوں کو نظر انداز کریں۔ ہم ان کی مذمت کرتے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے کہ ان ڈرون حملوں کے خلاف عالمی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے حکومت نے کئی اقدامات کیے ہیں۔"
بدھ کو شمالی وزیرستان کے علاقے درگاہ منڈی میں ڈرون طیارے سے مشتبہ شدت پسندوں کے زیر استعمال ایک گھر اور ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں کم ازکم چھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ رواں ماہ ڈرون طیارے سے کیا گیا تیسرا حملہ تھا۔
دریں اثناء وزیراعظم نواز شریف نے ایک بار پھر کہا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑ رہا ہے اور اس میں کامیابی کے لیے پوری قوم کا متحد ہونا ناگزیر ہے۔
جمعرات کو پنجاب کے وزیراعلیٰ سے ملاقات میں ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں مصروف تمام فوجی اہلکاروں کو بھرپور حمایت اور تعاون فراہم کیا جائے گا۔
ادھر شمالی وزیرستان میں کرفیو میں نرمی کے بعد مقامی آبادی کے انخلا کا سلسلہ جاری ہے اور اطلاعات کے مطابق اب تک لگ بھگ ایک لاکھ لوگ محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہو چکے ہیں۔
شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع ہونے سے قبل ہی لوگوں نے محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہونا شروع کر دیا تھا اور بعض اطلاعات کے مطابق کچھ خاندان نقل مکانی کرکے مشرقی افغان صوبے میں بھی داخل ہوئے ہیں۔ لیکن صوبائی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ایسے افراد کی تعداد محض ایک فیصد ہے۔
نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی اکثریت بنوں اور اس سے ملحقہ علاقوں میں منتقل ہوئی ہے جہاں ان افراد کے لیے کیمپ قائم کیے گئے ہیں اور رجسٹریشن کے لیے بنائی گئی چوکیوں کی تعداد 20 تک بڑھا دی گئی ہے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اب تک 70 ہزار سے زائد افراد کو رجسٹر کیا جا چکا ہے لیکن یہ امر قابل ذکر ہے کہ نقل مکانی کر کے آنے والوں کے لیے قائم کیمپوں کی بجائے اکثریت شہری علاقوں میں اپنے رشتے داروں یا پھر کرائے کے گھروں میں رہنے کو ترجیح دے رہی ہے۔
بنوں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی شہر میں آمد سے یہاں معمولات زندگی متاثر ہوئے اور اشیائے خورونوش کے علاوہ ضروریات زندگی کی دستیابی بھی مشکل ہو چکی ہے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے جمعرات کو جاری بیان میں بتایا کہ فورسز نے شمالی وزیرستان میں زرتنگی پہاڑی پر کوبرا گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے کارروائی کر کے 15 مشتبہ شدت پسندوں کو ہلاک کیا۔ اس علاقے میں شدت پسندوں نے ایک بڑا مواصلاتی مرکز قائم کر رکھا تھا۔
بیان میں مزید بتایا گیا کہ مرکزی قصبے میران شاہ اور میر علی کے درمیان واقع سڑک پر دھماکا خیز مواد نصب کرنے والے دہشت گردوں پر فوج کے ماہر نشانہ بازوں نے فائرنگ کر کے کم ازکم آٹھ ازبک جنجگوؤں کو ہلاک کردیا۔
فوج نے اتوار کو شمالی وزیرستان میں ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کیا تھا۔
اس دوران تین مرتبہ بغیر ہوا باز کے مشتبہ امریکی جاسوس طیارے سے بھی ایجنسی کے مختلف علاقوں میں میزائل حملے ہوئے جن میں بیس سے زائد لوگ مارے گئے جن کے بارے میں مقامی ذرائع کے مطابق غیر ملکی شدت پسند بھی شامل ہیں۔
پاکستان نے ان ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہوئے اپنے اس موقف کو دہرایا ہے کہ یہ اقدام اس کی ملکی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے جمعرات کو اسلام آباد میں ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں بتایا کہ ڈرون حملوں کا شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن سے کوئی تعلق نہیں۔
" ایسا بالکل نہیں ہے کہ ہم ان (ڈرون) حملوں کو نظر انداز کریں۔ ہم ان کی مذمت کرتے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے کہ ان ڈرون حملوں کے خلاف عالمی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے حکومت نے کئی اقدامات کیے ہیں۔"
بدھ کو شمالی وزیرستان کے علاقے درگاہ منڈی میں ڈرون طیارے سے مشتبہ شدت پسندوں کے زیر استعمال ایک گھر اور ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں کم ازکم چھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ یہ رواں ماہ ڈرون طیارے سے کیا گیا تیسرا حملہ تھا۔
دریں اثناء وزیراعظم نواز شریف نے ایک بار پھر کہا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑ رہا ہے اور اس میں کامیابی کے لیے پوری قوم کا متحد ہونا ناگزیر ہے۔
جمعرات کو پنجاب کے وزیراعلیٰ سے ملاقات میں ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں مصروف تمام فوجی اہلکاروں کو بھرپور حمایت اور تعاون فراہم کیا جائے گا۔
ادھر شمالی وزیرستان میں کرفیو میں نرمی کے بعد مقامی آبادی کے انخلا کا سلسلہ جاری ہے اور اطلاعات کے مطابق اب تک لگ بھگ ایک لاکھ لوگ محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہو چکے ہیں۔
شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی شروع ہونے سے قبل ہی لوگوں نے محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہونا شروع کر دیا تھا اور بعض اطلاعات کے مطابق کچھ خاندان نقل مکانی کرکے مشرقی افغان صوبے میں بھی داخل ہوئے ہیں۔ لیکن صوبائی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ایسے افراد کی تعداد محض ایک فیصد ہے۔
نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی اکثریت بنوں اور اس سے ملحقہ علاقوں میں منتقل ہوئی ہے جہاں ان افراد کے لیے کیمپ قائم کیے گئے ہیں اور رجسٹریشن کے لیے بنائی گئی چوکیوں کی تعداد 20 تک بڑھا دی گئی ہے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اب تک 70 ہزار سے زائد افراد کو رجسٹر کیا جا چکا ہے لیکن یہ امر قابل ذکر ہے کہ نقل مکانی کر کے آنے والوں کے لیے قائم کیمپوں کی بجائے اکثریت شہری علاقوں میں اپنے رشتے داروں یا پھر کرائے کے گھروں میں رہنے کو ترجیح دے رہی ہے۔
بنوں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی شہر میں آمد سے یہاں معمولات زندگی متاثر ہوئے اور اشیائے خورونوش کے علاوہ ضروریات زندگی کی دستیابی بھی مشکل ہو چکی ہے۔